• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجلس احرار کے جلسے میں جب کسی کو فقرے سے فقرہ ملانا یاد نہیں رہتا تھا، وہ فوراً کوئی شعر پڑھتا، لوگ سن کر حسبِ معمول تالی بجاتے۔ مگر ایک بات اہم تھی کہ اس زمانے میں شعر پڑھنے والے کم از کم بحر میں تو شعر پڑھتے تھے۔ اس بات کے گواہ شورش کاشمیری اور عبداللہ ملک رہے ہیں۔ اب وہ زمانہ آگیا کہ کوئی بھی سیاست دان یہ مشکل وقت آپڑے تو شعر پڑھتے ہوئے غلطیوں پہ غلطیاں اتنی کرتا ہے کہ آج کل کا اردوا دب کا بچہ بھی ان کے پڑھنے پر ہنس پڑتا ہے۔ دور کیوں جائیے آل پارٹیز کانفرنس میں آصف زرداری تو غلطیوں میں نمبر ون، نواز شریف نمبر دو اور شہباز شریف نمبر 3رہے۔ اچھا یہ بھی نہیں کہ وہ منہ زبانی بول رہے تھے خیر سے سب کے سب لکھا ہوا پڑھ رہے تھے اور ہم سر پیٹ رہے تھے کہ عمران خان کی تو یہ غلطی ہوتی ہے کہ شعر ٹھیک پڑھتا ہے مگر کبھی علامہ اقبال کے نام لگا دیتا ہے اور کبھی مولانا ظفر علی خان کے۔ باقی سارے وزراء اللہ ماشاء اللہ محرم کو مجرم ہی پڑھتے رہتے ہیں۔ لگتا ہے کہ جیسے انہوں نے جوانی میں عشق ہی نہیں کیا کہ کم ازکم وصی شاہ یا حسن نثار کا شعر ہی انہیں یاد ہوتا۔ خیر کی خبریہ اس لئے نہیں ہے کہ وہ جب یوم آزادی کیلئے نام منتخب کرتے ہیں تو خیر سے کوئی پڑھا لکھا اگر میٹنگ میں شامل ہو تو وہ غلطی ہی سے سہی کوئی معقول نام تجویز کر دیتا ہے۔ ورنہ کل کے چھوکروں اور لڑکیوں کو تحفے عطا کر دیئے جاتے ہیں،پھر گڑے مردے اکھاڑتے ہیں۔

مگر انڈیا بہت آگے جارہا ہے۔ اول تو گدھی کے دودھ کا پلانٹ لگا رہے ہیں۔ شاید اس طرح ہندو توا والوں کو گدھی جتنی عقل تو آجائے گی۔ دوسرے اکشے کمار نے بہت لوگوں کو ناراض کر دیا یہ کہہ کر کہ وہ روز گائے کا پیشاب پیتا ہے۔ اور پھر کشمیر میں اتنے سارے ہندوئوں کو بسانے کی کوشش کیوں کی جاتی؟ ابھی تو سنسکرت لازمی کرنے کے منصوبے ہیں جو اشوک اپنے دور حکومت میں نہیں کرسکا تھا۔ دنیا ہنس رہی ہے یہ بھی دو مزے کی باتیں ہیں۔ مجھے یاد آیا کالیہ اس نے سترھویں صدی میں طاعون پھیلنے پر ایک نظم لکھی تھی۔ اس نے اپنی بیوی کو کوہ ہمالیہ میں بادلوں کےذریعے نظم بھیجی تھی۔ بس بس۔ اتنی حکایت کافی ہے، ورنہ آج کل مہا بھارت کی بڑی بڑی دیو مالائیں سامنے لائی جارہی ہیں کہ ہمیں یقین کرنا پڑے گا کہ زمین گائے کے ایک سینگ پر کھڑی ہے۔ جب وہ سینگ بدلتی ہے توزلزلہ آجاتا ہے۔ بہرحال واپس پاکستان آئیں۔ شیعہ، سنی محاسبہ بھی دیکھ لیں۔ وہ بھی دیکھ لیا۔ اس کا تجزیہ صدر مملکت نے سراج الدولہ و دیگر شخصیات کا فتح و انتقام کی مثالیں دیکر تمام علما کو ایسے بتایا کہ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی۔ اُدھر ٹی وی پر حزب مخالف پر تابڑ توڑ حملے سن کر مجھے ایک دیہاتی کا قصہ یاد آیا۔ وہ کہیں جارہا تھا ایک بچےنے اس سے پوچھا ’’یہ آپ کی مٹھی میں کیا ہے‘‘ دیہاتی بولا اگر تو صحیح صحیح بتا دے تو دونوں انڈے میں تجھے دیدو ںگا۔ بس۔ یہی سیاست کا روزنامچہ ہے۔ ہر وقت، ہر تقریر، ہر گفتگو میں آگ بگولہ ہونے والوں کو تو لوگ ٹرمپ کی باقیات سمجھتے ہیں۔ سنجیدہ بات کی جائے تو پڑھے لکھے غامدی صاحب کا پروگرام دیکھ لیتے ورنہ، ہر چینل پر موجود اور مسلسل بولنے والے صاحبان کو دیکھ کر تو لوگ چینل اس طرح بدل لیتے ہیں جیسے مزاح کے نام پر پھکڑپن اور ڈرامے دیکھ کر راشد الخیری صاحب کا زمانہ یاد آجاتا ہے اور آخر میں بی بی سی کی دستاویزی فلمیں جس میں کسی مذہب یا کسی دور کی قید نہیں، بلکہ تحقیق ایسی کہ سب کام چھوڑ کر پروگرام کو سنجیدگی سے دیکھا جاتا ہے۔

پاکستان میں اس وقت 71لاکھ لوگ بیروزگار ہیں۔ یہ ماہرین معیشت بتاتے رہتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ اتنے مہینوں تک لاک ڈائون کے نتائج پاکستان بھر کے لیبر روم بتائیں گے کہ جب سے کورونا آیا ہے، صحت کے شعبے میں فنڈز بھی نہیں ہیں اور فیملی پلاننگ کے شعبے کو بھی سانپ سونگھا ہوا ہے۔ بہت دن سے ثانیہ نشتر بھی خاموش ہیں۔ کوئی طبلہ بھی نہیں بج رہا سوائے شبلی فراز کے ڈنڈا ڈولی کرنے کے۔ ویمن کمیشن پورے سال سے خالی ہے کوئی خاتون کیا اس قابل نہیں کہ اس کی نظامت سنبھال سکے؟

یہ بھی اس لئے یاد آیا کہ ہر چند طالبان خواتین صحافیوں سے گفتگو کرنے سے گریز کرتے ہیں اور آنکھ تو بالکل نہیں ملاتے مگر افغان حکومت نے بچوں کی پیدائش پر بچوں کے نام کے ساتھ ماں کا نام بھی لکھنا لازمی قرار دیا ہے۔ ایک اور مثال مجھے یاد آرہی ہے کہ سخت مذہبی فضا میں ایرانی عورتوں نے اپنا بینڈ بنا لیا ہے۔ یہ تو آپ کو معلوم ہی ہوگا کہ بہت سی ایرانی فلموں نے آسکر حاصل کیا ہے یہ ہماری چھلانگیں لگاتی پنجابی ہیروئن کا کوئی مہذب شخص نام ہی نہیں لیتا ہے۔ یاد آیا پاکستان کے سارے صوبوں اور مرکز میں بھی سنسر بورڈ کیا کام کررہے ہیں؟ عدیل ہاشمی پنجاب کے سنسر بورڈ کے سربراہ ہیں وہ تو آرام سے بیٹھنے والی شخصیت ہی نہیں۔ وہی کچھ کرے، ورنہ آرام سے ہے خلق خدا، ہم سب کو سانگھڑ کے گائوں کے بچے کی طرح رولا ڈالنا پڑے گا تو ہمیں بھی سردیوں میں گیس مل سکے گی۔ بے چارہ کراچی، بجلی ہی نہیں۔

تازہ ترین