• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقوام متحدہ کی جانب سے ہر سال 21ستمبر کو منائے جانے والے عالمی امن پر جہاں پاکستان میں محض چند رسمی تقریبات دیکھنے میں آئیں،وہاں کراچی میں اے این پی کی طلبہ تنظیم پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے فروغِ امن کیلئے آرٹس کونسل کراچی کے وسیع وعریض لان پریادگارپختون ثقافتی تقریب کا اہتمام کیا۔ 23ستمبر 2017کو پشتو اکیڈمی، کوئٹہ کے عالمی پشتو سیمینار کے موقع پر ہر برس’’پشتون کلچرل ڈے‘‘ منانے کا اعلان کیا گیا تھا۔ سو، پاکستان اور افغانستان کی طرح جہاں جہاں پختون آباد ہیں وہ اس دن کو مناتے ہیں ۔اس سال اے این پی سندھ کے سربراہ سابق سینیٹرشاہی سید نے پارٹی اجلاس میں یہ فیصلہ کیا کہ ہم ثقافتی دن کو یومِ امن کے طور پر منائیں گے۔ لہٰذا یہ بیڑاپختون طلبہ کے قائدانجینئرآصف خان نے اُٹھایا،پختون وکلاکے سالار شاہ امروزخان ایڈوکیٹ نے جن کی معاونت کی ۔اے این پی کا موقف ہے کہ نائن الیون کے بعد برپا دہشت گردی نے خیبرسے کراچی اور چترال تا بولان پختونوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا ،شہدا میں نمایاں تعداد اے این پی کے راہ نمائوں وکارکنوں کی ہے۔وہ سمجھتے ہیں کہ ایک عرصے بعد امن قائم ہونے سے ملک بھر کے پختونوں ہی نے اس پر زیادہ سکون کا سانس لیا ہے،وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم آج بھی باچاخان کے فلسفہ عدم تشددپر قائم ہیں اور اسی وجہ سے پختونوں نے ظلم تو برداشت کیا لیکن مسلح جدوجہد کی راہ نہیں اپنائی۔ ہم باچاخان اور ولی خان ہی کی طرح آئینی و قانونی جدوجہد پرعمل پیرا ہیں۔ حقیقت بھی یہ ہے کہ 1979میں امریکی حواریوں کی برپاسازشوں سے جہاں افغانستان زیر جنگ آیاوہاں نائن الیون کے بعد دہشت گردی نے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔پورے پاکستان مگر خاص طورپر پختون بیلٹ پر بدامنی کے سیاہ بادل چھائے ہوئے تھے،پختون مشران ،مرد و زن تہہ خاک ہورہے تھے تو تعلیمی ادارے بارود سے زمین بوس کردئیے جاتے تھے۔انتہاپسندی کے اس ماحول میں پختون ثقافت،فنون لطیفہ وموسیقی سب سے زیادہ متاثر ہوئے، فن کاروں کی ایک تعداد قتل ہوئی، متعدد نے جلاوطنی اختیارکی،اسٹیج ،تھیڑ،محافل موسیقی تو تہہ تیغ ہی تھے کہ روایتی رقص’’اتن ‘‘بھی جیسے نوجوان بھول گئے تھے۔موجودہ دور سیاسی طور پر تو تلاطم خیز وبلاخیز ہے لیکن اس میں شائبہ تک نہیں کہ دہشت گردی سے زخم رسیدہ متاثرین کیلئے امن مرہم لے کرآیاہے۔اب جہاں فنکاروطن لوٹ رہے ہیں،وہاں خوشی کے مواقع پر پختون آبادیوں میں روایتی رقص وموسیقی عوام کیلئے راحت کا سامان ہوتے ہیں۔اسی امن کے طفیل آرٹس کونسل کراچی میں گزشتہ روز عالمی پختون ثقافتی دن پر خوبصورت رنگ و آہنگ،سُروساز زندگی کا اعلان کرتے رہے۔آرٹس کونسل کے صدر احمدشاہ اور ان کی ٹیم کی ہردم تازہ دم جہد وجستجو کےباوصف اب آرٹس کونسل علم وادب ،موسیقی، مصوری، شاعری کا بے نظیر گہوارہ بن چکاہے ،پھر جمالیاتی حِس وادراک رکھنے والے احمد شاہ نےملک کی تمام ثقافتوں کے فروغ کیلئے بھی اس کو ایک پلیٹ فارم بنارکھا ہے ،یوں اس ادارے کے توسط سے مختلف رنگوں سے مزین ثقافتیں عالمی طور پر روشناس ہوجاتی ہیں۔ کراچی پختونوں کا سب سے بڑا مسکن ہے اس شہر میں پشاور سے بھی زیادہ پختون آباد ہیں،اس روز مختلف علاقوں سے آنے والےلوگ جہاں دستار باندھے اپنے روایتی لباس میںجمال وجلال کا دلکش منظرپیش کر رہے تھے، وہاں بچے وبچیاں ثقافتی لباس میں پریاں وشہزادے لگ رہے تھے۔تاریخی اوزار، چپلی کباب، کتابوں کے اسٹالوں، جرگہ، موسیقی، شاعری سے جہاں شرکاء محظوظ ہوئے وہاں جیسے ہی روایتی رقص ’’اتن ‘‘ شروع ہواتو جناب شاہی سید اور زمرک خان اس جذباتی ماحول میں خود پر قابو نہ پاسکے اور ایسے محورقص ہوئے کہ گویاڈھول کی تھاپ پر ثقافتی رقص کا مرتبہ سیاست کے جاہ وحشم سے بھی بلند و بالاہے ۔ مرنجان مرنج انجینئرزمرک خان اچکزئی بلوچستان کے وزیر ہیں، عمل پر یقین رکھتےہیں وہ خصوصی طور پرشرکت کیلئے آئےتھے،پروگرام کی جان وکلید پشاورسے آئے نامور نوجوان کمپیئر افسرافغان تھے،وہ اسٹیج پر آتےہیں تو شرکاء اُس کے لب وقدم کے ہر جنبش پر ایسے سحرزدہ ہوجاتے ہیں کہ پروگرام کے اختتام تک شرکا کا، مے ومیناسامنے کا اسٹیج ہی ہوتاہے،پھروہ اور راشدخان راشد تویک جان ہیں ۔راقم نے بھی پروگرام میں دوچار باتیں کیں ،لیکن اصل کارکردگی پختون ایس ایف کے اُن کارکنوں کی ہے جنہوں نےدہشت گردوں کے سرپرستوںکو بزبانِ جالب یہ پیغام دیا:

میرے ہاتھ میں قلم ہے میرے ذہن میں اجالا

مجھے کب دبا سکے گا کوئی ظلمتوں کا پالا

مجھے فکر امن عالم، تجھے اپنی ذات کا غم

میں طلوع ہو رہا ہوں تو غروب ہونے والا

تازہ ترین