• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زیادتی

کوئی ایک زیادتی ہو تو بندہ قلم سے زیادتی کر بھی لے مگر جہاں ہر شعبہ قلم قلم ہو وہاں قلم زنی کی کیا گنجائش مہنگائی سے لیکر جنسی زیادتیوں کی ارزانی تک ایک بازار نخاس گرم ہے۔ جہاں بندۂ مفلس کچھ خرید سکے وہ بازار سرد ہے، اگر یہاں صفائی مقصود ہوتی تو اپوزیشن با جماعت استعفے دے دیتی مگر بڑی خودمحفوظ حزب اختلاف ہے کہ اختلاف بھی رہے اور اپنا آنگن صاف بھی رہے،شاید اقبال کے اس شعر کو بھی خود حفاظتی کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے ؎

اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی

تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن

خان صاحب نے کیا مزے کی بات کی، کہ حزب اختلاف سے کوئی خطرہ نہیں ہمارے لوگ ہی اپنی طرف گول کر دیتے ہیں، زیادتیاں بھی غریبوں کےساتھ ہوتی ہیں ایلیٹ کلاس کو تو مہنگائی زیادتی، جنسی زیادتی چھو بھی نہیں سکتی، کیونکہ وہ جنس ہی ایسی ہے جو کسی بازار سے دستیاب نہیں، غریبوں کے ملک میں امیروں کی حکمرانی ہے، اس لئے غریب کی جان، مال، عزت سرے سے موجود ہی نہیں نہ جانے لوٹنے والے کیا لوٹتے ہیں بھلے سڑک پر سزا نہ دیں مگر اس وقت سے ڈریں جب غریب سڑکوں پرسزا دینگے ، کیا یہ بھی آئی ایم ایف نے کہاہے کہ عزتیں لوٹنے والوں کو پردوں میں چھپا کر سزا دیں تاکہ اس کا قرضہ اتارا جا سکے؟یا پھر ہم سب ہی اپنی طرف گول کر رہے ہیں، جب زیادتی ہر محاذ سے حملہ آور ہو پھر حکمران صرف اپنے ساتھ زیادتی نہیں ہونے دیتے، بھلا وہ یہ جنسی زیادتیاں کیوں کر روک سکتے ہیں، وہ ہر نئے سورج کے ساتھ ہی مہنگائی کا چن چڑھا دیتے ہیں، آئی ایم ایف سے قرضوں کی مقدار و تعداد تو گزشتہ 70سال سے ہم نے بے تحاشا قرضے لئے اور مزید لے رہے ہیں اگر یہ ضرورت پورا کرنے پر خرچ ہوتے تو یہ امیروں غریبوں کا ملک نہ ہوتا انسانوں کا وطن ہوتا کوئی زیادتی بھی نہ ہوتی ۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

تعلیم یکساں ہوتی تو دولت رواں ہوتی

غریبوں اور امیروں کے سکولوں میں زمین آسمان کا فرق ہو تو غریبوں کے بچے سکول سے باہر ہی بہتر، جونظام تعلیم رائج ہے وہ ہی مساوات پیدا نہیں ہونے دیتا، جب ہم چھوٹے اور خان صاحب بڑے تھے تب وہ اکثر کہا کرتے تھے جب ہماری حکومت آئے گی تعلیم کو یکساں کر دیں گے ہم بڑے ہو گئے تو وہ چھوٹے ہوگئے اور حکومت حکومت کھیلنے لگے اور یوں پہلا گول انہوں نے اپنی ہی طرف کر دیا، حکومت ہار جائے تو پوری قوم شکست سے دوچار ہو جاتی ہے؟ تعلیم کی عدم یکسانیت نے طبقاتی کشمکش کو جنم دیا تعلیم دینے والوں کا معیار تدریس پاتال میں چلا گیا، نتیجہ کیا نکلا کہ نہ اچھی اردو آئی نہ انگریزی، سائنس کے میدان میں بھی ویرانی بس اتنی سی ہماری کہانی، اگر ہرشعبے کی نجکاری کر دی جاتی تعلیم کا شعبہ حکومت اپنے پاس سگی اولاد کی طرح رکھتی تو آج ہمارے حالات مختلف ہوتے ،زیادہ نمبر لینے اور صلاحیت پیدا کرنے میں بڑا فرق ہوتا ہے، تعلیم کے شعبے میں طلبا کے گیٹ اپ پر زیادہ زور رہا اور کلاس رومز میں شور رہا، اس طرح ہماری کشت ہی شورزدہ ہو گئی، بیج ڈال کربھی کچھ اگتانہیں اس لئے ہم نے چند امیروں اور باقی سب فقیروں کی فصل کاٹی، پھر اس پر طرہ یہ کہ ہم نے دین دنیا کو جدا کرکے چنگیزی پیدا کی، جب تک مسلمانوں کا مدرسہ ایک رہا جہاں دین دنیا میں کوئی فرق نہ تھا، مسلمان ایک رہے ایک ہی مدرسے سے آل رائونڈرز پیدا ہوتے رہے، جب سے سکول دو ہوئے فرقے پیدا ہوگئے، اب کوئی مسجد میں فزکس پڑھا کر دکھائے ، معاملات و عبادات میں تفریق نے یہ تصور ہی مٹا دیا کہ ہر وہ معاملہ جو درست انداز میں طے کیا جائے وہ عبادت ہے، الغرض یونیفارم پہن کر بھی یونی فار میٹی نہ آسکی، ایک سی ایس پی افسر تیار کرنے پر جتنی توجہ دی جاتی ہے اس کا عشر عشیر بھی ایک استاد پر نہیں ،پھر بڑے لوگوں کو چھوٹے لوگ کیسے پیدا کر سکتے ہیں، مجھے آج بھی وہ جملہ یاد ہے کہ سٹاف روم میں جمع اساتذہ نے مجھ سے کہا آپ کی کلاس ہم پڑھا دینگے آپ ہماری کلاس لیں۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

نوٹس

ہمارے کان پک گئے ’’نوٹس لے لیا‘‘ سن سن کر، ہماری آنکھیں ترس گئیں نوٹس لینے کا منظردیکھنے کو، اور بالآخر وہی نوٹس بورڈ یاد آنے لگے جس پر لکھا ہوتا تھا کل چھٹی ہوگی، سکول پر سوں کھلے گا، میں نے انگلینڈ میں دیکھا کہ طالب علم کا سکول سے گھر آنے کو دل نہیں کرتا، اور ادھر یہ عالم کہ بچے کی دعا یہ ہے سکول پر بم پڑے کہ ہمیں صبح صبح اٹھ کر سکول نہ جانا پڑے، حضرت بزدار ہر روز کتنے ہی نوٹس لیتے ہیں مگر وہ اپنی اس کارکردگی کا کوئی نوٹس نہیں لیتے، البتہ کل سے فلاں فلاں چیز کی قیمت میں اتنا اضافہ ہو گا یہ نوٹس ضرور جاری ہوتا اور نافذ کیا جاتا ہے، ہمارے ہاں نوٹس بکثرت لیا جاتا دیا نہیں جاتا، ہم نےسنا ہے شاید کسی نے اڑائی ہو کہ کوئی شیخ گہری کھائی سے تب نکلنے پر آمادہ ہوتا ہے جب اس سے کہا جائے میرا ہاتھ لے لو، ہمارے شیخ نامدار سے اس کی تصدیق یا تردید ضرور کرالیں، ایک تو نوٹس ہوتا ہے جس کا مطلب نوٹس سے مس، اور ایک (NOTES)بھی ہوتے ہیں جو طلبہ تیار کرتے ہیں بلکہ یہ باقاعدہ کاروبار بھی ہے اردو بازار سے رجوع کیجئے اس کے علاوہ خاصے کی چیز کرنسی نوٹ ہوتا ہے جو رشوت کے بازار حسن میں یہ کہہ کر چلتا ہے کہ ’’مینوں نوٹ وِکھا میرا موڈ بنے‘‘ بہرحال اس ایک لفظ نوٹس ہی میں ہماری وہ داستان پوشیدہ ہے جس بارے کہا گیا؎

تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں

حکومت کا ہر پرزہ ہر روز کئی نوٹس جاری کرتا ہے اسی لئے کہ وہ مقدس تبدیلی نہیں آ رہی جس کا ہم سے ڈی جے کے گیتوں میں کہا گیا تھا۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی

٭ مقررین :میر شکیل نے اپنے ادارے کے ذریعے پاکستان کی خدمت کی۔

جب اس کام پر پابندی ہے پھر انہوں نے ایسا کیوں کیا بس یہی ان کا جرم ہے ۔

٭94ادویات کی قیمتیں بڑھانے سے بلڈ پریشر، شوگر، کینسر اور دل کے مریض زیادہ متاثر ہونگے۔

یہ سب امراض تو موت کے ایجنٹ ہیں وہ کتنے خوش ہوں گے۔

٭قمرزمان کائرہ :بجلی ،ادویات اور اشیائے خورونوش کو مہنگاکرنا غریب دشمنی ہے۔ آپ نے رعایت سے کام لیا یہ تو غریب کی نسل کشی اور امیر کی افزائش نسل ہے۔

٭سراج الحق :حکمران عوام کو نچوڑنے اور گردن مروڑنے میں ماہر ہیں۔

آپ کی جماعت کے ہوتے ہوئے ایسا کیوں ہو پا رہا ہے کوئی معروضی علاج فرمائیں۔

تازہ ترین