اسلامی فتوحات پر مبنی عالمی شہرت یافتہ تُرک ڈرامہ سیریز ’ارطغرل غازی‘ نے ایک اور سنگ میل عبور کرتے ہوئے گنیز بُک آف ورلڈ ریکارڈ میں جگہ بنالی۔
’ارطغرل غازی‘ تاریخ کا بہترین ڈراما ہونے پر گنیز ورلڈ ریکارڈ کے لئے منتخب ہوا ہے جس کو دیکھنے والوں کی تعداد 30 لاکھ تک پہنچ چکی ہے اور دنیا بھر کی 39 زبانوں میں اس کا ترجمہ کیا گیا ہے، جو ایک ریکارڈ ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت پر پاکستان میں رمضان المبارک میں اس سیریز کو سرکاری ٹی وی چینل پر نشر کیا گیا، ان کا کہنا تھا کہ یہ ڈرامہ ہمارے اسلامی اقدار کی عکاسی کرتا ہے۔
پاکستان میں اس سریز کے خوب چرچے رہے، ترک اداکاروں کو پاکستان میں موجود مداحوں کی جانب سے خوب پیار دیا گیا۔
تاریخ پر مبنی ترک ڈرامہ سیریل ’ارطغرل غازی‘ اپریل سے پاکستان میں نشر ہونے کے بعد لاکھوں پاکستانیوں کے دلوں کی دھڑکن بنا۔
مسلم تاریخ سے شغف رکھنے والے پہلے ہی اس سیریز کے دلدادہ ہیں اور تقریباً پوری دنیا کو اس ڈرامے نے اپنی جانب راغب کیا ہوا ہے۔
’ارطغرل غازی‘ کی تحریر و تخلیق کار محمت (محمد) بوزدک ایک منجھے ہوئے فلم ساز ہیں۔
انہوں نے کمال مہارت سے روایتی اسلامی عقائد کو اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر بُرائی کے خلاف لڑنے والے ہیرو کی کہانی کے ساتھ ملا کر جس طرح اس سیریز کے ذریعے پیش کیا ہے وہی اس کی کامیابی کی کنجی ہے۔
ارطغرل اپنے پلاٹ ، اپنی پروڈکشن اور اداکاری کے اعتبار سے بلاشبہ ایک شاہکار ہے۔ ’ارطغرل‘ ترکی کے خانہ بدوش قبیلے ’قائی‘ کی کہانی ہے۔
قائی قبیلہ ایک جنگجو قبیلہ ہے جو ایک طرف بے رحم موسموں کے نشانے پر ہے اور دوسری جانب منگولوں اور صلیبیوں کے نشانے پر ہے۔
’ارطغرل غازی‘ کی مقبولیت:
اس ڈرامے کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ٹی آر ٹی کے ڈپٹی ڈائرکٹر جنرل ابراہیم ایرن کے مطابق یہ ڈرامہ 60 سے زائد ممالک میں ٹی وی چینلز پر دکھایا جا رہا ہے۔اب تک دنیا کے 78ممالک میں یہ سیریز دیکھی جا رہی ہے جس میں مستقل اضافہ ہو رہا ہے۔
فنی اعتبار سے تو یہ ڈرامہ ایک شاہکار ہے ہی ، اس کی ایک اور خوبی بھی ہے ہے کہ یہ مسلمانوں پر مسلط کردہ احساس کمتری کا طلسم کدہ توڑ کر پھینک دیتا ہے۔
ڈرامے کا یہ تہذیبی پہلو اتنا شاندار ہے کہ 2007 میں نیویارک ٹائمز میں ولیم آرمسٹرانگ نے لکھا کہ طیب اردوان اور ترکی کی نفسیات جاننے کے لیے ’ارطغرل‘ ڈرامہ دیکھ لیجیے۔
اس بیان نے پروپگینڈے کی ایک صورت اختیار کر لی جس کے بعد اردوان نے ’ارطغرل‘ کے خلاف ہونے والے اس سارے پروپیگنڈے کے جواب میں صرف ایک فقرہ کہا کہ’جب تک شیر اپنی تاریخ خود نہیں لکھیں گے تب تک شکاری ہی ہیرو بنے رہیں گے۔‘