کراچی (اسٹاف رپورٹر) سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس محمد شفیع صدیقی کی عدالت میں غیر قانونی آر او پلانٹس کی تنصیب کے خلاف درخواست کی سماعت ہوئی، جسٹس شفیع صدیقی نے استفسارکیاکہ ڈپٹی کمشنرکہاں ہیں؟اس دوران اسسٹنٹ کمشنر نے بتایاکہ ڈپٹی کمشنر وسطی وزیراعلیٰ سندھ کے ساتھ اجلاس میں شریک ہیں جس پر عدالت نے برہمی کا اظہارکرتے ہوئے ریمارکس میں کہاکہ عدالت نے بلایا پھر بھی وہ نہیں آئے کیا اب ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کریں ؟ اسسٹنٹ کمشنر امتیاز ابڑو نے کہاکہ درخواست گزار جس آر آؤ پلانٹ کے خلاف عدالت آیا ہے وہ اس کی حدود میں آتا ہےاور انہوں نے عدالت کے روبرو اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ دستیاب معلومات کے مطابق ضلع میں مجموعی طورپر 170آراو پلانٹس میں سے صرف 24قانونی طورپر نصب ہیں جبکہ باقی پلانٹس غیر قانونی ہیں ،اسسٹنٹ کمشنر کی رپورٹ میں یہ واضح نہیں کیا گیاکہ آراو پلانٹس کی منظوری کےلیے کیا معیار رکھا گیاہےاور کس ضلع میں کتنے آر او پلانٹس لگانے کی گنجائش ہوسکتی ہے، جسٹس شفیع صدیقی نے اسسٹنٹ کمشنرسے استفسارکیاکہ جس آر او پلانٹ کا معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے کیا وہ بھی غیر قانونی ہےاسسٹنٹ کمشنر نے کہا جی بلکل وہ بھی غیر قانونی ہے،جسٹس شفیع صدیقی نے کہاکہ آپ غیر قانونی پلانٹس کو سیل کیوں نہیں کرتےجس پر اسسٹنٹ کمشنرامتیاز ابڑو نے محکمہ فوڈ پر ذمہ داری ڈال دی، عدالت نے ڈی جی محکمہ فوڈ کو نوٹس جاری کرتے ہوئےایک ہفتے میں جواب طلب کر لیا ہے، درخواست گزارنے موقف اختیارکیاکہ غیر قانونی آر او پلانٹ کی وجہ سے زندگی اجیرن ہوگئی ہےمحکمہ فوڈ کے جواب تک حکم امتناع جاری کیا جائے رہائشی عمارت میں غیر قانونی طریقے سے آر او پلانٹ لگایا گیاہےآراو پلانٹ کی نہ تو انسپکشن کرائی گئی ہے نہ ہی متعلقہ ادارے سے اجازت نامہ لیا گیا ہے، جنریٹرز کے شور کی وجہ سے بچوں کی تعلیم متاثر ہوتی ہے لہذا استدعاہےکہ کارروائی عمل میں لاکرانصاف فراہم کیاجائے۔