طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ فیس ماسک ایک خاص قسم کی ویکسین ہے، یہ کورونا وائرس کے ذرّات کو فلٹر کرکے ان کی شرح انتہائی کم کر دیتا ہے، اگر ماسک پہننے والے شخص کے جسم میں یہ ذرّات چلے بھی جائیں تو اس کی علامات سامنے نہیں آتیں۔
ایک طبی جریدے نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسین میں شائع تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اگر یہ نظریہ درست ثابت ہوا تو بڑے پیمانے پر کسی بھی قسم کے فیس ماسک کا استعمال بڑھے گا اور اس سےکورونا وائرس کے بغیر علامات والے کیسز کی شرح بڑھے گی۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق کیلیفورنیا یونیورسٹی کے محققین ڈاکٹر مونیکا گاندھی اور ڈاکٹر جارج رتھرفورڈ نے کہا کہ اُن کے پاس ایسے شواہد موجود ہیں کہ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ فیس ماسک ایک ویکسین کے طور پر کام کرتا ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ حال ہی میں چوہوں پر ہونے والی تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا تھا کہ وائرس کے زیادہ ذرات کے نتیجے میں کورونا وائرس کی سنگین شدت کا سامنا ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ جب چوہوں کو ماسک کے ذریعے تحفظ فراہم کیا گیا تو ان میں بیماری کی علامات معتدل رہیں یا نمودار ہی نہیں ہوئیں۔اخلاقی وجوہات کی وجہ سے انسانوں پر اس طرح کے تجربے نہیں ہوتے مگر آبادیوں پر ہونے والی تحقیقی رپورٹس سے بھی 'ماسک کے ویکسین ہونے کے خیال کو تقویت ملتی ہے۔
امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن نے بتایا تھا کہ جولائی کے وسط میں کورونا وائرس کے 40 فیصد کیسز بغیر علامات کے تھے مگر امریکا کے جن حصوں میں ماسک پہننے کا رجحان زیادہ ہے وہاں یہ شرح 80 فیصد تک پہنچ گئی۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ بحری جہازوں میں کورونا وائرس کی وبا کے آغاز میں جب فیس ماسک کا استعمال عام نہیں تھا تو بغیر علامات والے کیسز کی شرح 20 فیصد تھی، مگر ارجنٹائن کے ایک جہاز میں جہاں فیس ماسک کا استعمال عام تھا، وہاں یہ شرح 81 فیصد ریکارڈ ہوئی۔
اسی طرح امریکا کے فوڈ پراسیسنگ پلانٹس میں جہاں فیس ماسک کا استعمال لازمی تھا، وہاں کورونا وائرس کی وبا پھیلنے پر 95 فیصد کیسز میں علامات سامنے نہیں آئیں جبکہ باقی 5 فیصد میں بھی معمولی سے معتدل علامات دیکھی گئیں۔
مگر دیگر طبی ماہرین نے انتباہ کیا کہ فیس ماسک کو محفوظ اور موثر ویکسین کا متبادل نہ سمجھا جائے۔