اسلام آباد (ایجنسیاں‘جنگ نیوز)وزیراعظم عمران خان کا کہناہے کہ فوج نے نواز شریف کو چوسنی لگا کر سیاست دان بنایا، نواز شریف کبھی جمہوری نہیں رہے، پاکستان میں سول اور فوجی تعلقات میں مسئلہ رہا ہے۔
اگر ماضی میں کسی آرمی چیف نے کوئی غلطی کی تو کیا ہمیشہ کے لیے پوری فوج کو برا بھلا کہیں‘ اگر جسٹس منیر نے غلط فیصلہ کیا تو عدلیہ کو ساری زندگی برا بھلا کہنا ہے‘حکومت چلانا فوج نہیں میرا کام ہے۔
جہاں بھی ضرورت پڑے گی اداروں کو استعمال کروں گا‘جنرل راحیل شریف نے نواز شریف کے کہنے پر دھرنا ختم کرنے کو کہا لیکن میں نے انکار کردیا ‘مجھ سے پوچھے بغیرکوئی آرمی چیف کارگِل پر حملہ کرتا تومیں اس کو سامنے کھڑا کر کے فارغ کردیتا‘جنرل ظہیرالاسلام نے استعفیٰ مانگا تو میاں صاحب انہیں برطرف کرتے۔
منتخب وزیراعظم ہوں کس کی جرات کہ مجھ سے استعفیٰ مانگے،پاک فوج میری پالیسی کے ساتھ کھڑی ہے‘جنرل قمرجاوید باجوہ نے مجھ سے پوچھ کر اپوزیشن جماعتوں سے گلگت بلتستان کے معاملے پر ملاقات کی تھی‘ میاں صاحب بانی متحدہ بن کر فوج ‘ عدلیہ اور نیب کو نشانہ بنارہے ہیں ‘ وہ مجرم ہیں انہیں واپس لانے کا منصوبہ بنالیا۔
نواز شریف جو گیم کھیل رہے ہیں وہ بہت خطرناک ہے،واضح طور پر کہتا ہوں بھارت ان کی مددکررہاہے ‘خدا کے واسطے اپنی آنکھیں کھولو ‘ فوج بدل چکی ہے ‘اگر آج ہماری پاکستانی فوج نہ ہوتی تو ملک کے تین ٹکڑے ہوجاتے، این آراونہ ملنے پر سارے چور اور ڈاکو اکٹھے ہوگئے ہیں ، اقتدار چھوڑنے کو ترجیح دوں گامگر این آر او نہیں دوں گا۔
یہ ملک کو تباہ کرکے چلے گئے اور سوال ہم سے کرتے ہیں ‘احتجاج اپوزیشن کا حق ہے لیکن اگر قانون توڑاتو سب کو جیل میں ڈال دوں گا‘جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے متعلق رپورٹ ایسٹ ریکوری یونٹ (اے آریو)نے دی ‘ہم نے فیصلے کیلئے عدلیہ کو بھیج دی ۔
جمعرات کو ایک انٹرویومیں وزیراعظم نے کہا کہ جمہوریت اگر ملک کو نقصان دے رہی تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کی جگہ مارشل لا آجائے، اس کا مطلب ہے جمہوریت کو ٹھیک کریں۔
ہمارے ملک میں عدلیہ بہتر ہوتی گئی ہے اور اسی طرح فوج بھی بہتر ہوئی ہے‘موجودہ سول فوجی تعلق بہتر ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ فوج ایک جمہوری حکومت کے پیچھے کھڑی ہے۔
عمران خان نے کہا کہ آج فوج میری پالیسی کے ساتھ کھڑی ہے لیکن اپوزیشن کا مسئلہ یہ ہے کہ نواز شریف کبھی جمہوری نہیں تھے،وہ جنرل جیلانی سے شروع ہوئے ، جنرل ضیا الحق نے پالا، سب میرے سامنے ہے، کیسے ہاتھ پکڑ کر منہ میں چوسنی لگا کر انہیں ایک سیاست دان بنایا ۔
نواز شریف پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ تو ایک کاروباری تھے، کیسے ڈی سیز کے دفتر کے باہر پھل کے ٹوکرے رکھاکرتے تھے‘پہلے ان کا مسئلہ غلام اسحق سے آیا، جنرل آصف جنجوعہ، پھر جنرل پرویز مشرف کو ترقی دی تاہم مسئلہ آیا، اس کے بعد جنرل راحیل اور پھر جنرل باجوہ سے مسئلہ آیا‘ دراصل یہ لوگ چوری کرنے آتے ہیں‘ہماری ایجنسیز آئی ایس آئی اور ایم آئی ورلڈ کلاس ہیں‘ انہیں ان کی چوریوں کا پتہ چل جاتا ہے۔
نواز شریف سارے سول اداروں کو قابو کرتے ہیں، نواز شریف نے عدلیہ کو کنٹرول کیا، سجاد علی شاہ کو ڈنڈے اور باقی عدلیہ کو کنٹرول کرنے کے لیے پیسوں کے بریف کیس دئیے۔
یہ فوج کو کنٹرول کرنا چاہتے تھے اور جب کنٹرول میں نہیں آتی تھی تو یہ جمہوری بن جاتے تھے اور سارا وقت فوج کو برا بھلا کہتے ہیں، بیان میں کہہ رہے تھے کہ جنرل ظہیر الاسلام نے آکر کہا کہ استعفیٰ دو، آپ وزیراعظم تھے، اس کی جرات ہے آپ سے یہ کہنے کی، آپ سیدھے ان سے جواب طلب کریں۔
عمران خان نے کہا کہ نواز شریف جو گیم کھیل رہے ہیں وہ بہت خطرناک ہے، یہی الطاف حسین نے کیا‘فوج کو کمزور کرنے میں دلچسپی ہمارے دشمنوں کی ہے‘امریکا میں ہندوستانی لابی میں کون بیٹھا ہوا ہے جو بڑا جمہوری بن کر پاکستان کی فکر میں، حسین حقانی باہر بیٹھ کر مہم چلاتا ہے اور یہاں نادان لبرلز بنے ہوئے ہیں اور کہتے ہیں ہم فوج کے خلاف ہیں۔
ہندوستان کے تھنک ٹینک باقاعدہ طور پر کہتے ہیں کہ پاکستان کو توڑنا ہے اور ہم اس فوج کی وجہ سے بچے ہوئے ہیں۔میں ملکی تاریخ کا واحد آدمی ہو ہوں جو 5 حلقوں سے جیت کر آیا ہوں، نواز شریف اور ذوالفقار علی بھٹو کی طرح فوج کی نرسری میں نہیں پلا۔
ہندوستان نے پاکستان میں مسالک کے درمیان انتشار کا منصوبہ بنایا تھا لیکن ہماری ایجنسیوں نے ناکام بنایا اور اسلام آباد میں لوگوں کو پکڑا‘بھارت گلگت بلتستان میں انتشار پھیلانے کی کوشش کر رہاہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ نواز شریف جھوٹ بول کر بیرون ملک گئے، ہم تو سمجھ رہے تھے کہ وہ جہاز کی سیڑھیاں بھی نہیں چڑھ سکیں گے۔
انہیں معلوم ہے میں این آر او نہیں دوں گا اس لیے مائنس ون کہتے رہتے ہیں، اپوزیشن عدلیہ، نیب اور فوج پر پریشر ڈال رہی ہے۔
اگر اس وقت یہ پریشر ہم نے برداشت کر لیا تو پاکستان وہ ملک بن جائیگا جو اسے بننا چاہیے تھا۔اگر اپوزیشن استعفے دے گی تو ہم الیکشن کرادیں گے۔