• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج اتوار ہے، اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں کے ساتھ صبح، دوپہر گزارنے، اُن کے سوالوں کے جواب دینے کا دن۔ کورونا سے پہلے میری اِس تجویز کا بھی بہت سے احباب نے خیر مقدم کیا تھا کہ عصر کے بعد مسجد میں یا محلّے میں اپنے پڑوسیوں کے ساتھ کچھ لمحات گزاریں۔ دیکھیں کوئی بیمار تو نہیں۔ کسی ذہنی تشویش میں تو مبتلا نہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دل کی گہرائیوں سے دُعا ہے کہ سب گھروں کو شاد آباد رکھے۔ الجھنوں سے نجات دے۔ مالی پریشانیوں سے محفوظ رکھے۔ خیالِ ہم نفساں بھی رخصت ہو گیا۔ محلّے داری بھی نہیں رہی۔ پھر یہ ہمارے معزز رہنمائوں کے بیانیے، مزید تشویش میں ڈال دیتے ہیں، اعصاب میں تنائو پیدا کردیتے ہیں۔

خطرناک کھیل کھیلا جارہاہے، کون ہے ماسٹر مائنڈ، یہ تحقیق کوئی نہیں کررہا ہے۔ ہم سب جانے انجانے میں اس کھیل کے کردار بن رہے ہیں۔ سابق صدور، وزرائے اعظم اور وزراء، موجودہ وزیراعظم اور وفاقی وزراء، سب اِس کھیل میں کود رہے ہیں۔ ہم ماضی سے آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔ تاریخ کے کئی موڑوں پر ایسے ہی بیانیے جاری ہوتے رہے ہیں۔ اِن کا انجام کیا ہوا۔ بہت سی شخصیات تاریخ کے کچرے دان میں گم ہو گئیں۔ اُنہیں اب کوئی یاد نہیں کرتا۔ ان کے اپنے لاڈلے بیٹے، نوازے ہوئے دوست بھی اُن کا نام نہیں لیتے۔ میاں محمد نواز شریف جس بیانیے کو لے کر بتدریج آگے بڑھ رہے ہیں۔ وہ بہت خطرناک ہے۔ معلوم نہیں کہ وہ اس کو اِس کے منطقی انجام تک لے جانا بھی چاہتے ہیں یا وقتی طور پر غلغلہ اندازی کررہے ہیں۔ اس بیانیے کے لئے جو انقلابی قافلہ چاہئے وہ اُن کے پاس ہے یا نہیں؟ اس کے راستے میں جو حوالات، زنداں، عقوبت خانے، شاہی قلعے پڑتے ہیں، کیا یہ سب اُن کے ذہن میں ہے؟ پھر اِس کے نتیجے میں جو قیامتیں برپا ہوں گی، کیا وہ ان سے نمٹ سکیں گے؟ یہ انقلاب اگر کامیاب ہو جاتا ہے تو اس کے بعد بلوچستان، جنوبی پنجاب، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر، کراچی، لاڑکانہ، سکھر میں جو طوفانی جھکڑ چلیں گے، کیا مسلم لیگ(ن) اور پی ڈی ایم کی دوسری پارٹیوں کے پاس اس گردو غبار پر قابو پانے کے لئے فہم و فراست اور مطلوبہ انتظامیہ موجود ہے؟ اگر اِن کے پاس ایسے تربیت یافتہ سیاسی کارکن اور رہنما نہیں ہیں تو اِن بیانیوں سے ملک کو جو نقصان پہنچے گا، اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟

پاکستان میں جس قسم کا منظر نامہ ہے، مختلف حصوں میں، مختلف علاقوں میں جو بنیادی تعصبات، تصورات اور رجحانات ہیں، اُن کی موجودگی میں کسی ایک سمت والے فکری انقلاب کا کوئی امکان نہیں ہے۔ فرانسیسی انقلاب کی بات تو ہوتی ہے لیکن اِس کے لئے جو خمیر اور ضمیر مطلوب ہے وہ نظر نہیں آتا۔ انقلاب ہر علاقے میں الگ الگ سمت اختیار کر سکتا ہے۔ پنجاب، جنوبی پنجاب، سندھ، کے پی، بلوچستان، گلگت بلتستان، آزاد جموں وکشمیر کے غریبوں، مڈل کلاسیوں، کاشتکاروں، مزدوروں، کارکنوں اور چھوٹے سرکاری ملازموں کے مسائل اور پریشانیاں ایک سی ہیں مگر ان کو کبھی قریب نہیں آنے دیا جاتا۔ سب اپنی اپنی جگہ دوسرے صوبوں کو اپنی مصیبتوں کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ یہ فکری رجحانات تو روزِ اوّل سے چلے آرہے ہیں۔ اس لئے ذہنی طور پر ہم ایک قوم نہیں بن پائے لیکن مجھے وزیراعظم کے ایک جملے نے ہلاکر رکھ دیا۔ میں انتہائی ذہنی اضطراب میں مبتلا ہوں۔ میں نے آج کے لئے موضوع کچھ اور منتخب کر رکھا تھا۔ اِسے آئندہ کے لئے ملتوی کرکے میں اس خطرناک انکشاف کا پس منظر جاننا چاہتا ہوں۔ میری طرح میری نسل کے لوگوں نے اور دردمندوں نے بھی یقیناً اس جملے کے مضمرات کو محسوس کیا ہوگا۔ وزیر اعظم نے اپنے حالیہ ٹی وی انٹرویو میں فرمایا ہے:

’’خدا کے واسطے آنکھیں کھولو، فوج بدل چکی ہے، اگر آج ہماری فوج نہ ہوتی تو ملک کے تین ٹکرے ہو جاتے‘‘۔

اتنی بڑی بات اُنہوں نے بڑے وثوق سے کہہ دی ہے۔ اب 22کروڑ پاکستانی اس کا سیاق و سباق ڈھونڈ رہے ہیں، عرصے کا تعین کرنا چاہتے ہیں، کونسے عناصر تین ٹکڑے کرنا چاہتے تھے۔ ہم سب بھیگی پلکوں، جھکے سر کے ساتھ 1971کو یاد کرتے ہیں۔ جب ملک دو لخت ہو گیا۔ تاریخِ اسلام میں اتنے بڑے پیمانے پر ہتھیار ڈالنے کا سانحہ ہوا۔ جو اکثریت میں تھے، پاکستان بنانے میں جن کا ہم سے زیادہ حصہ تھا، وہ پاکستان کو خیر باد کہنے پر مجبور ہو گئے۔ ظاہر ہے کہ یہ اس طرف اشارہ نہیں ہوگا، یہ تو 1971کے بعد کے پاکستان کا کوئی خطرناک موڑ تھا، جب پاکستان تین ٹکڑے ہونے سے بچ گیا۔ وزیراعظم نے اچھا کیا کہ اس طرف اشارہ کیا مگر اس بدقسمت قوم کو یہ تو بتائیں کہ یہ کب کا واقعہ ہے اور یہ تین ٹکڑے کرنے کی سازش کس کی تھی۔

اب یقیناً ہماری فوج 1971کے مقابلے میں تعداد میں بھی زیادہ ہے، دفاعی اسلحے کی کفالت بھی ہے، جدید ترین طیارے ہیں، تربیت ہے، ایٹمی ڈھال بھی ہے، دہشت گردی کے خلاف اس کی حکمت عملی کی ساری دنیا تعریف کرتی ہے۔ مختلف امن مشنوں میں پاکستانی فوج کا کردار لائق تحسین رہا ہے۔ یہ بھی اللہ کا فضل ہے کہ اس وقت ملک کے کسی حصے میں بھی علیحدگی کی کوئی تحریک نہیں چل رہی ہے۔ بلوچستان میں اپنے حقوق کے لئے شکایتیں موجود ہیں مگر وہ اپنے حقوق، اپنے اختیارات، اسی جغرافیائی انتظام میں چاہتے ہیں۔ سندھ، پنجاب، کے پی، گلگت بلتستان، آزاد جموں و کشمیر کہیں بھی مشرقی پاکستان کی طرح کوئی مسلح تحریک نہیں چل رہی ہے۔دہشت گردی پر بڑی حد تک قابو پایا جا چکا ہے۔ انتہا پسند سوچ، فرقہ پرستی، لسانی تعصبات یقیناً موجود ہیں مگر وہ سیاسی عمل سے دور ہو سکتے ہیں۔

وزیراعظم نے اتنے اعتماد اور یقین سے بات کی ہے تو قوم کو یہ بھی بتائیں کہ فوج نے جس ہونی کو روکا ہے، یہ سازش کیا بین الاقوامی، علاقائی یا اندرونی تھی؟ اس کے سرکردہ عناصر کون سے تھے؟ اب وہ سرکش عناصر کہاں ہیں؟ ’’تین ٹکڑے‘‘ کی ترکیب کی جغرافیائی تفصیل بھی بیان کریں۔ ان ٹکڑوں کی بنیاد کن سوچوں، تحریکوں اور سیاسی عوامل پر رکھی گئی تھی؟ یہ تفصیلات معلوم ہونے کے بعد یقیناً وزیراعظم کی، اداروں کی قدر قوم کی نگاہوں میں اور بڑھ جائے گی۔

تازہ ترین