چودہ صدیاں بیتے بھی عرصہ ہو چلا، مکہ میں ایک فاتح کی آمد ہوتی ہے، کروفر ایسا کہ بڑے بڑے شاہوں اور جرنیلوں کے دبدبے دیکھنے والے بھی انگشتِ بدنداں ہیں کہ ایسی شان و شوکت۔ مکہ والے تجارت پیشہ تھے، اکثر سفر میں رہتے تھے۔ اِن تاجروں نے بڑے بڑے جری سپاہ سالاروں کے جانثار دیکھ رکھے تھے لیکن اِس فاتح کے جانثاروں کے انداز ہی الگ تھے۔ ڈسپلن میں گندھے ہوئے، عقیدت میں ڈوبے ہوئے۔ فاتح چہرے پر پانی کی چھینٹ ڈال دیں تو عشاق پانی کی بوندیں زمیں پر نہیں گرنے دیتے۔ فاتح کے حکم پر گردنیں کٹانا تو معمولی سا کام ہے۔ فاتح کے فوجی تو آواز سنتے ہی پکار اُٹھتے:
ہمارے ماں باپ آپ پر قربان!
لیکن فاتح کی اپنی آنکھیں حیا سے جھکی ہیں، چہرے پر عجز و انکسار کے غازے ہیں۔ یہ وہی شہر ہے جہاں آج فاتح بن کر داخل ہونے والے کو کیسے کیسے ستایا نہیں گیا تھا۔ کہیں لختِ جگر کا قاتل ہے، کہیں جان سے پیارے چچا کا کلیجہ چبانے والے، کہیں جگری یاروں کو اذیتیں دینے والے کا مکان ہے، کہیں راستے میں کانٹے بچھانے والے کا دروازہ کھلتا ہے۔ کہیں وہ اوباشوں کے کھڑے ہونے والا چوراہا، جہاں آوازیں کسی جاتی تھیں۔ یہ وہی شہر ہر جسے پُر نم آنکھوں سے چھوڑنا پڑا تھا، جسے چھوڑتے ہوئے لب پر یہ جملے آئے تھے:
’’اے مکہ میں تجھ سے محبت کرتا ہوں لیکن تیرے مکیں مجھے رہنے نہیں دیتے‘‘۔
کیسی کیسی اذیت ناک یاد اس شہر سے وابستہ تھی، لیکن فاتح کے سامنے حسرت ندامت اور خوف کی تصویر بنے مکے والے ہاتھ جوڑے کھڑے ہیں۔ تاریخ سے آگاہ کہ جب فاتح شہروں میں داخل ہوتے ہیں تو کھوپڑیوں کے مینار بنا دیا کرتے ہیں۔ آج بھی یہ تماشہ لگے گا۔ کچھ کے دل میں شاید یہ خیال جاگزیں ہو کہ آج شاید کھال کھینچی جائے گی۔ کسی کے گمان میں ہو کہ شاید اُبلتے تیل کے کڑاہ میں مجرموں کو پھنکوا دیا جائے۔
لیکن فاتح کی آنکھ اٹھتی ہے، دل دہلتے ہیں اور اعلان ہوتا ہے۔
’’آج کے دن تم پر کوئی مواخذہ نہیں‘‘۔
یہ فاتح کوئی بادشاہ نہیں بلکہ رب العالمین کے آخری پیغمبر خاتم الانبیاسید عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم تھے اور فتح مکہ کے موقع پر انہوں نے ریاست کو چلانے کی بنیادی شرط اپنی ذات کے نمونہ سے دنیا کے سامنے رکھ دی۔ آپ نے دکھا دیا کہ ریاستیں ذاتی نفرتوں اور انتقام کی کوکھ میں تشکیل نہیں پاتیں۔
حالات و واقعات اور تاریخ کو بہت تیز چلا کر پاکستان کی بات کرتے ہیں، وہی پاکستان جسے ہم نے اسلام کی تجربہ گاہ بنانے کا عزم کیا تھا۔ کہاں مکہ کے فاتحین جن کے سردار سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہ جنہیں بدترین مخالف بھی سچا مانتے جنہیں دشمن جاں بھی امین کہتے ۔ آپؐ نے ریاست کے خدوخال کا ڈھانچہ دےدیا تھا۔
ایک لحظہ ٹھہر کر ذرا پاکستان کا منظر نامہ تو دیکھیں، الفاظ، وعدے اپنی حرمت کھو چکے، جبہ و دستار سے لیکر ساغر و پیمانہ تک، مذہب پسندوں سے لیکر ترقی پسندی کے ڈھنڈور چیوں تک ،سلطانی جمہور کے اعلان کنندہ سے سول ملٹری بیورو کر یسی تک، سوشل میڈیا سے ٹی وی کی سکرینوں پر براجماں شخصیات تک کسی کی عزت محفو ظنہیں۔ کسی کا کسی پر اعتماد سلامت نہیں ۔ آزادی کے نعرے، سلگتے صوبےاور اس پر مہنگائی اور بدانتظامی کا بدترین دور ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی وقت جاتا ہے کہ کاغذی بندوبست پھٹ گیا تو سیلابی ریلے کی طرح سب نظام بہہ نکلے گا۔
پاکستان اب مزید ایسے نہیں چل سکتا۔ہمارے اجداد کے لہو کے گارے سے تعمیر شدہ یہ ریاست مزید رعونتوں کے بوجھ نہیں اُٹھا سکتی۔ یہ عشرت کدوں کے باہر اپنی لاشیں اپنے ہی کندھے پر رکھ کر پھرنے والے مظلوموں کی سسکیوں کو مزید نہیں جھیل سکتی۔ چلچلاتی دھوپ میں جسم کی چربی پگھلا کر مزدوری کرنے والے محنت کش کے بھوکے بچوں کے سوال اب مزید جواب کے منتظر نہیں رہ سکتے ۔ سچ پابند سلاسل قفس سے مز ید ٹکرانا اب ریاست کے اعصاب کے لئے ممکن نہیں ۔ نفرتوں کے سوداگروں کو اب اپنی دکانیں اقتدار کے ایوانوں سے نکالنا ہوںگی۔ بلکہ فیض سے تر کیب مستعارلے کر کہوں گا۔
اب ارضِ خدا کے کعبے سے سب بت اٹھوانا ہوں گے۔ اور اس کے بعد ہی کسی این آر او نہیں این ٹی آر او (نیشنل ٹروتھ اینڈ ری کنسلیشن) پر بات ہوگی۔ آئین پاکستان کے تحت کسی نئے عمرانی معاہدے پر بات اور ایک نیا آغاز کرنا ہوگا۔ اور اس عمرانی معاہدے کی بنیاد کے لئے پاکستان کے تمام جمہوریت پسندوں کو آج ایک میثاق پر آنا ہوگا۔