کراچی(ٹی وی رپورٹ) پنجاب پولیس کی جانب سے ایک شہری کی درخواست پر سابق صدر نواز شریف سمیت انکے چالیس رہنماوٴں کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا جس میں وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان کوبھی نامزد کیا گیا تاہم راجہ فاروق حیدر نے اس حوالے سے راست کوئی ردِعمل ظاہر نہیں کیا ۔
جیو پارلیمنٹ کے میزبان ارشد وحید چوہدری نے اپنے پروگرام میں وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان سے بغاوت کے مقدمے سے انکا موقف جاننے کی کوشش کی۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان سے ملاقات میں، میں نے واضح کردیا تھا کہ میں سیاسی وابستگیوں پر کمپرومائز کرنے والا آدمی نہیں ہوں، لیگی ہوں، لیڈر میرے میاں نواز شریف ہیں تاہم وزیراعظم میرے آپ ہیں۔میں نے نہیں کہا کہ بغاوت کے مقدمے سے میرا نام نکال دیں، جذبے ماند نہیں پڑے لیکن لوگوں کو دکھ اور افسوس ہے ۔
اپنا نام بطور باغی نامزد ہونے پر راجہ فاروق کا کہنا تھا کہ تین بار وزیر اعظم بننے والے اور تین سابق جرنیل کے نام اس مقدمے میں آگے تو باقی کیا رہ جاتا ہے ۔ مقدمہ درج کرنے والوں کو علم نہیں کہ آزاد کشمیر کے وزیر اعظم کانام کس طرح ان چارجز میں آئیگااس سے بڑی بد بختی اور کیا ہوگی۔
تفتیش میں شامل ہونے کے سوال پر راجہ فاروق کا کہنا تھا کہ جس نے جس وقت بھی بلایا سرکاری گاڑی میں اپنی پولیس سے ہتھکڑی لگوا کرجاوٴں گاتاکہ قوم کوبھی پتا چلے جس کا جینا مرنا پاکستان کے ساتھ اورجس کے گھر پر 1947میں بھارتی ایئرفورس کے جہازوں نے دو بم پھینکے وہ بھی اس فہرست میں شامل ہے۔
ایک اورسوال پر راجہ فاروق حیدر کا کہنا تھا کہ ہمارا مستقبل پاکستان سے وابستہ ہے ایسے مقدموں سے ہمارے ارادے بدل نہیں سکتے ہمیں بائیس کروڑ پاکستانی عوام کی حمایت حاصل ہے۔
وفاقی اور صوبائی حکومت کی اس مقدمے میں لاتعلقی پر راجہ فاروق نے کہا کہ سیکڑوں لوگ ڈسٹرکٹ کورٹ میں پھر رہے ہیں کہ ہماری ایف آر درج کرلو ان کی ایف آئی درج نہیں ہورہی اور یہ ایف آئی آر درج ہوگئی سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس میں جو دفعات ہیں کیا وہ کوئی عام شہری درج کرا سکتا ہے ؟؟
مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ حکومت پاکستان نے کہہ دیا کہ تفتیش کر کے نکالیں گے آپ کو کس نے کہا تفتیش کریں۔؟ دو لفظ معذرت کے کہنے کی بھی توفیق نہیں ہوئی انہیں۔ پاکستان اور آزاد کشمیر کا بہت نازک رشتہ ہے ان رشتوں کو ایسی باتیں کر کے نقصان پہنچایا گیا پاکستان سمیت دنیا بھر کے ٹی وی چینلز میں میرا نام آیا۔
ارشد وحید چوہدری کے سوال پر کہ کیا صوبائی وزیر اعلیٰ و گورنر کے کہنے پر ایف آئی آر میں سے نام نکالا جاسکتا ہے پر راجہ فاروق کا کہنا تھا کہ جب وزیر اعظم عمران خان ایک ٹی وی انٹرویو میں کہیں کہ میاں نواز شریف کے پیچھے ہندوستان ہے تو پھر باقی کوئی بات نہیں رہتی اور لوگ پھر اس طرح سے ایف آر درج کراتے ہیں، رہی بات نام خارج کرنے کی تو میں نے کب کہا کہ میرا نام خارج کریں۔
مقدمے میں شامل سخت دفعات کے حوالے سے راجہ فاروق نے کہا کہ دفعات لگانے والے یہ نہیں جانتے کہ میں نے کئی جنگیں لڑی ہیں ان چیزوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا یہ اخلاقی دیوالیہ پن اور ملک دشمنی کا ثبوت ہے پاکستان کی سا لمیت کیخلاف یہ ایف آر درج کی گئی ہے۔ پیٹا کی ایک دفعہ جسے نواز شریف حکومت میں بنوایااور اُسی کی زد میں آنے کے حوالے سے سوال پرراجہ فاروق نے کہا کہ قانون سازی کے وقت بڑی احتیاط کی اوران قوانین کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔
اس مقدمہ کے اثرات کے حوالے سے راجہ فاروق نے کہا کہ جذبے ماند نہیں پڑے لیکن لوگوں کو دکھ اور افسوس ہے یہ چیزیں ملک کو کمزور کرتی ہیں مجھے تشویش اس بات کی ہے کہ اگر تین چوتھائی لوگ مودی کے ایجنٹ ہیں تو پھر میرا مستقل کہاں ہے جو اینٹی انڈیا ہے پاکستان کے اندرمیرا مستقل کیا ہے۔ پی ڈی ایم کے ساتھ حکومت کیخلاف احتجاجی تحریک میں شریک ہونے کے سوال پر انہوں نے کہا ایسی کوئی ہدایت نہیں نہ فیصلہ کیا۔
بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں 5اگست کے بعد بربریت پر پاکستانی حکومت کے اٹھائے جانے والے اقدامات پر راجہ فاروق نے کہا بہت کچھ کرنا باقی ہے جو کچھ کشمیری توقع رکھتے تھے وہ نہیں کیا گیا وزیر اعظم کو چاہئے کہ تمام جماعتوں کو اکٹھا کریں۔
گلگت بلتستان الیکشن کے سوال پر انہوں نے کہا کہ گلگت کا مسئلہ بڑا نازک ہے جسے سوچ سمجھ کر حل کرنے کی ضرورت ہے جہاں تک گلگت میں الیکشن کی بات ہے تو مجھے اس میں شفافیت نظر نہیں آتی گلگت میں اس طرح کے الیکشن پاکستان کے مفاد میں نہیں ہوں گے۔
انہوں نے اپنی ایک خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میری ایک خواہش ہے کہ مرنے سے پہلے کہ میں ایک آزاد شہری کی حیثیت سے سری نگر اپنی ماں کے گھر جاکر پاکستان کا پرچم وہاں پر لہرا سکوں۔ بادامی باغ کے ہیڈ کوارٹر پر پاکستانی پرچم لہرانا چاہتا ہوں۔