• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قادری صاحب کی رخصتی کے بعد اُن کی نموداری سے پیدا ہونے والے زلزلے کے جھٹکے ابھی تھمے ہی تھے کہ مشّرف صاحب کی دھڑام سے آمد ہو گئی اور بیچاری قوم ایک بار پھر اصلی اور نقلی زلزلوں کی زد میں آگئی۔ عسکری ملازمت کے دوران دو سال ایسے منصب پرفائز رہنے کا اعزاز حاصل ہوا جہاں مجھے مشّرف صاحب کو قریب سے اور انہیں مجھے دور سے دیکھنے کا موقع ملا لہٰذا بہت سے دوستوں نے مجھ سے ان کی خوامخواہ آمد پر ان کو مشورہ دینے والوں کی عقل اور ان کے نام دریافت کئے۔ میں نے اپنے تجربے کی روشنی میں عرض کیاکہ مشورہ اسی کا ہوگا جو اپنے آپ کو عقلِ کُل سمجھتا ہو۔ جہاں تک مشّرف صاحب کا تعلق ہے تو وہ مشورہ اُسی کا قبول کرتے تھے جو اُن کی عقل وفہم کو بھائے اور جس کا مشورہ نہ بھائے وہ ان کی طرف سے
بھاڑ میں جائے۔مزید بحث سے بچنے کے لئے میں نے منیرنیازی کا یہ شعر پڑھ کر جان چھڑالی:- #
کُج شہر دے لوک وی ظالم سَن
کُج سَانوں مَرن دا شو ق وی سِی
قارئینِ کرام! سابق صدر کے خلاف الزامات کے حوالے سے پینڈورا باکس نہ کھولنے کی گونج آپ نے بھی سُنی ہو گی اور یہ بھی علم ہوگا کہ ہماری قومی تاریخ میں جب بھی ایسے واقعات رونما ہوئے جن کیلئے عوام نے احتساب کی کوشش کی تو یہی پینڈورا باکس نہ کھولنے کی مصلحت آڑے آئی نتیجتاً نہ بکس کھلا اور نہ ہی احتساب ہوا۔میری کم علمی کی داد دیجیے کہ میں پینڈورا ،راولپنڈی سیٹلائیٹ ٹاؤن کے عقب میں واقع ایک گاؤں کو ہی سمجھتا رہا ۔ اس نام کے چرچے نے اس کا مفہوم جاننے کا تجسّس پیدا کیا تو معلوم ہوا کہ یونانی دیومالا کے اعتبار سے پینڈورا دراصل کرہٴ ارض کی پہلی خاتون تھی جس کوZeusنامی دیوتانے تحفے کے طور پر ایک خوبصورت مرتبان نما ڈبہ دیا اور کسی بھیحال میں اُسے نہ کھولنے کی ہدایت کی مگر وہ کھول بیٹھی ۔ کھلتے ہی اس میں موجود تمام برائیاں زمین کے طول وعرض میں پھیل گئیں سوائے ایلپس(Elpis) کے جو اس ڈبے کی تہہ میں موجود رہی اور وہ تھی " اُمید کی روح" ۔ اپنی اس نادانی پر پینڈورا دیوتا کے عذاب سے خوفزدہ تھی، اگرچہ دیوتا نے پینڈورا کو معاف کردیا تھاکیونکہ ایسا ہونا اس کے علم میں تھا۔
قارئینِ کرام! موجودہ دور میں پینڈورا باکس کھولنے کی اصطلاح سے مراد یہ لی جاتی ہے کہ یہ وہ عمل ہے جو بظاہر چھوٹا اور معمولی نظر آئے لیکن اس کے کرنے سے دُوررَس اور شدید نتائج نکلتے ہوں۔ اس گیدڑ کی کھال میں چُھپی” کبوتری “ سوچ نے ہمیں اس نہج پر پہنچا دیا ہے جہاں حکمران آئین اورقانون کواپنی من مُندر ی سمجھ کرہوامیں اچھالتے رہے۔ہمارے مقبول قائدِ عوام ذوالفقارعلی بھٹو، اسکندرمرزا اورایوب خان کی کابینہ کے وزیر رہے اور اُنہیں چچا اور والد کا درجہ دیا۔ اُن دونوں کو رخصت کرکے یحییٰ خان کے ساتھ شکار کھیلا جس کے نتیجے میں چند تیترکچھ بٹیراور ایک آدھ ہرن کے ہلاک ہونے کے ساتھ ساتھ مُلک بھی دولخت ہوا۔پھر قوم کی دعاوٴں کے عوض اس باقی ماندہ ملک پر امیرالمومنین کا نزول ہوا جنہوں نے عدلیہ کی تلوار سے قائدِ عوام کو تختہٴ دار پرچڑھایااو ر اس کے بعد جو بولا اُسے کوڑے لگائے۔ سیاسی خلا کو پُر کرنے کے لئے نئی سیاسی پودتشکیل دی جو ماشا أللہ آج بھی شیر کی مانند دھاڑ رہی ہے۔ تاریخ کا ایک اور قابلِ دید نظارہ اُس وقت ظہورپذیر ہوا جب کمانڈو جرنیل نے جہاز سے کود کر دھاڑتے ہوئے شیر کو اپنے چھاتے میں دبوچ کرپابندِ سلاسل کردیا۔ ان کی اسی ہنرمندی سے متاثر ہوکر سیاستدانوں کی ایک کثیر تعداد نے اُن کے چھاتے تلے پنا ہ لی۔ وردی میں ایسے ڈٹ کر حکومت کی کہ پنجاب کے” سائیکلِ اعلیٰ“ نے اُنہیں سوسال تک وردی میں دیکھنے کی خواہش کا اظہارکر ڈالا مگر موصوف نے آٹھ سالوں میں ہی تھک ہار کر ایمر جینسی نافذ کردی۔
قارئینِ کرام! یہ سب کچھ ہوا مگر ہم نے پینڈورا باکس کھُلنے کے ڈر سے چپ سادھ رکھی اوراِن تمام حکمرانوں کا انجام جہازوں کے ہی سپرد کیے رکھا۔ پینڈورا در حقیقت چھوٹی باتوں کے باہر نکلنے سے پیدا ہونے والے بڑے اوربُرے نتائج کو روکنے کی بات ہے۔ لیکن ہماری کیا بات ہے ہم نے تو بڑے اور بُرے نتائج بھگتے اور چھوٹی بات تک نہ کی! کیا ملک کا دو لخت ہونا چھوٹی بات تھی کہ حمودالرحمان کمیشن رپورٹ کو فوراً اورمن و عن شائع نہ کیا گیا؟ کیا ملک کے دو منتخب وزرأ اعظم کو فوج اورعدلیہ کے اشتراک سے ہٹانا چھوٹی بات تھی ؟کیا ان کے
ذمہ داران کا احتساب نہ کرنا اور ڈبے کو بند رکھنا دانش مندی تھی؟قارئینِ کرام! آئین کی بے حرمتی اور بے توقیری کا سلسلہ تو ہمارے ہاں کب سے جاری ہے۔ اس کے بر عکس ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان میں نہ تو کوئی آمر آیا اور نہ ہی عوام نے فوج کو دعوت دی یہ اس لئے ممکن ہوا کہ وہاں کے سیاسی قائدین اورتمام ادارے اپنے آپ کو آئین و قانون کے تابع سمجھتے ہیں۔آج ہمارا مسئلہ پینڈورا باکس کے کھلنے یا بند رہنے کا نہیں کیونکہ یہ تو کب کا کھل چکا اور بدی بھی کب کی پھیل چکی۔ اب اُس کی تہہ میں بیٹھی ”اُمید کی روح“ کو بروئے کار لایا جا سکتا ہے اگر ہمارے قائدین، عوام اور ادارے آئین و قانون کی بالا دستی پر صدقِ دل سے ایمان لے آئیں۔
تازہ ترین