• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک اخبار میں 50برس پہلے کیا ہوا تھا۔ یہ خبریں ایک بلاگ کی صورت موجود ہوتی ہیں۔ میرا دماغ ایکدم پچاس سال پہلے کی جانب گھوم گیا۔ 50برس پہلے حکومت پاکستان نے گوادر پہ بڑا ائیر پورٹ اور بحری بیڑا بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ 50برس بعد شاید اس پر عملدرآمد ہوگا۔ 50برس پہلے ہمارا ایک بازو کاٹ دیا گیا تھا۔ ہم نے خود کیا زیادتیاں کی تھیں کہ وہ لوگ جن کو ہم گٹھے بونے بنگالی کہتے تھے، اُنہوں نے اپنے لئے آزادی چھین لی۔ آج وہی بنگالی دنیا کی کپڑے کی مارکیٹ میں اونچے درجے پر فائز ہیں۔

اصل میں ہمارا ایک پیارا دوست سعداللہ شاہ، اپنے کالم کا آغاز، بہت عمدہ شعروں سے کرتا ہے۔ میرے لئے فال یہ شعر ہے:

دیواریں تنی ہوئی کھڑی تھیں

اندر سے مکان گررہا تھا

آدھا ملک گنوانے کے بعد ہم نے سارے گروہوں کے درمیان توازن رکھنے کا معاہدہ کیا تھا پھر کیا ہوا۔ اسکے بعد تصویریں بتاتی ہیں کہ یا رسول اللہ اور محمد رسول اللہ گروپ آپس میں دست وگریباں تھے۔ اسکے بعد پھر مصالحت تو ہوئی مگر افغانستان میں جب ہم نے خود بہت سے ملکوں کے جہادی کچھ خود بنائے اور کچھ منگوائے کہ امن قائم ہو۔ اس پچاس برس کے عرصے میں سترہزار پاکستانی بشمول فوجی شہیدہوئے۔ یہ شورش ابھی تک، کتنے ہی قطری معاہدوں کے باوجود نہ صرف افغانستان میں آئے دن جاری ہے، بلکہ وزیرستان سے ایسی رپورٹیں آنی بند نہیں ہوئی ہیں۔ دیگر ممالک میں بھی چاقوئوں اور بندوقوں سے کبھی مسجدوں پر، کبھی گرجوں پر اور کبھی کھلی سڑک پر جسکے جی میں آئی، جتنے بھونے جا سکیں، بھون ڈالے، نام بد نام ہوکر آخر کو اسلامو فوبیا بن گیا۔

پچاس برس پہلے دس روپے کا ایک ڈالر آتا تھا۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ پاکستان میں تو سونا، ڈالر اور یورو مسلسل چھلانگ لگا رہا ہے۔ مہنگائی بھی بھوت کی طرح پھیلے جارہی ہے۔ پچاس برس پہلے مذہبی آزادی نصاب سے متعلق یہ تھی کہ عیسائی الگ اور مسلمان الگ پڑھتے تھے، مذہبی کتاب۔ پھر یوں ہوا کہ ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے۔ تاریخ، جغرافیہ غائب ہو گئے۔ تاریخ، ادب، مذہب کا ملغوبہ بناکر نصابی کتابیں تیار کی جاتی رہیں۔ تحریک پاکستان میں جس کو چاہا شامل کرلیا۔ اور آخر یہ ہوا کہ جب ٹی وی پہ23مارچ یا 14اگست کا پروگرام آتا تھا تو اس میں فضل حق صاحب جنہوں نے قرارداد پاکستان پیش کی تھی، انکا نام ہی نہیں لیا جاتا۔ اب تو انٹرویو میں ماسٹر پاس لڑکے، لڑکیوں سے پوچھو کہ بنگلہ دیش بننے سے پہلے، اس علاقے کا نام کیاتھا۔ ایک بھی صحیح نہیں بتاسکتا۔

پچاس برس پہلے اسپیچ رائٹر باقاعدہ ملازم رکھے جاتے تھے۔ الطاف گوہر اور قدرت اللہ شہاب اپنے منتخب لوگوں سے تقریریں لکھواتے تھے۔ بات کرتے کرتے ناصر زیدی یا پھر حسن رضا تک آئی۔ اب سب لوگ بزعم خود عالم فاضل ہیں۔ اس لئے ہرطرح کی زبان استعمال کرنے کی آزادی ہے۔ اب تک تو امریکہ میں بھی ہمارا شٹ اپ اور ہندوستان کا ہندوتوا پہنچ گیا ہے، کشمیر میں ڈیڑھ برس سے مسجدوں میں تالے پڑے ہیں اور افغانی لوگ پاکستان کے نام اور لوگوں سے بیزار اور بارودی سرنگیں بچھا رہے ہیں۔ زچہ اور بچوں کے اسپتال پر بم اور خودکش حملہ کرتے ہیں ۔عبداللہ عبداللہ نے تین روزہ پاکستان کا دورہ کیا اور اب چار روزہ انڈیا کے دورے پر ہیں۔ جو بچی ہوئی جمہوریت یہاں لائے تھے، وہاں جاکر شاہ سے بہت کچھ سیکھ کر آئینگے۔

50برس پہلے بھی گلگت بلتستان کو پاکستان میں ضم کرنے کی باتیں ہوتی تھیںجو اخبار میں رپورٹ ہوتی تھیں۔ ابھی تو پتھر کو چوم کر اٹھانے کا سوچا جارہا ہے، پچاس برس پہلے بھی ملیر ندی اور نالہ لئی کے بارش کے بعد امڈ پڑنے کی باتیں تھیں۔ پچاس برس پہلے اور آج بھی طلاق یافتہ یا بیوہ عورت کو دلہن کے پاس نہیں جانے دیاجاتا ۔ پچاس برس پہلے فیملی پلاننگ شروع ہوئی تھی۔ آج تک محکمہ قائم ہے۔ آبادی کے بڑھنے کی رفتار، بنگال سے بھی بڑھ گئی ہے۔ ابنِ سینا نے ایک ہزار سال پہلے کہا تھا کہ میں سوچتا ہوں،اس لئے میرا وجود ہے۔ چونکہ یہ بات ایک ہزار پہلے کہی گئی تھی ۔ اس لئے پرانی باتیں چھوڑیں۔

50برس پہلے ٹی وی آیا۔ لوگوں نے باتیں کرنا چھوڑ کر خاموش بیٹھے ٹی وی دیکھنا سننا پسند کیا۔ باتیں کیا رہ گئی ہیں۔ ڈرگز جس کو اگانے کے لئے حکومت نے منصوبہ بنایا ہے یعنی بھنگ۔ اللہ انکے ارادوں میں استقامت دے۔ اب تو کراچی اور بلوچستان کے جزیروں کوبھی آباد کیا جائیگا۔ کوتاہی تو تھی اب انہونی بھی ہو گئی۔

تازہ ترین