اسلام آباد ( رپورٹ، رانا مسعود حسین ) عدالت عظمیٰ نے کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی ( کے الیکٹرک) کی جانب سے کراچی میں خوفناک اور غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کرنے کیخلاف بنیادی حقوق کے مقدمہ کی سماعت کے دوران وفاقی حکومت کو دو ہفتوں کے اندر اندر نیپرا ایپلٹ ٹریبونل تشکیل دینے کی ہدایت کے ساتھ ساتھ نیپرا اورکے الیکٹرک سے چار ہفتوں کے اندر اندر پیشرفت رپورٹ طلب کرلی ہے جبکہ وفاقی حکومت کی جانب سے عدالت کوان معاملات کے حوالے سے بریفنگ دینے کی استدعا منظور کر تے ہوئے کیس کی مزید سماعت ایک ماہ کیلئے ملتوی کر دی ہے۔
دوران سماعت چیف جسٹس گلزار احمد نے کے الیکٹرک کی کارکردگی پر سوالات اٹھاتے ہوئے آبزرویشن دی ہے کہ وفاق اپنی ذمہ داری کا ایک کام بھی پورا نہیں کر رہا ہے، ایک ادارہ نہیں تمام اداروں کا یہی حال ہے تمام اداروں کو اربوں روپے دیئے جارہے ہیں، لیکن اس کے بدلے میںوہ عوام کی سہولت کیلئے کیا کر رہے ہیں؟کراچی میں شدید گرمی ہے اور لوگوں کو بجلی ہی نہیں مل رہی ہے، کیوں نہ ایم ڈی کے الیکٹرک کو جیل بھیج کر بھاری جرمانہ عائد کردیں؟انہوں نے کے الیکٹرک کی کارکردگی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے استفسار کیا کہ کیا کراچی کی تقسیم ممبئی سے کنٹرول ہو رہی ہے۔
چیف جسٹس گلزار احمدکی سربراہی میں جسٹس فیصل عرب اور جسٹس اعجاز الاحسن پہر مشتمل تین رکنی بنچ نے منگل کے روز کیس کی سماعت کے دوران عدالت کی طرف سے بار بار ہدایات کے باجود کے الیکٹرک کی کاکردگی کو بہتر نہ بنانے پر تشویش کا اظہار کیا جبکہ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پرائیوٹ کمپنیاں حکومتی غلطیوں سے فائدے اٹھا رہی ہیں، انہوں نے استفسار کیا کہ کیا کے لیکٹرک کے تانے بانے ممبئی سے نکلیں گے؟ حکومتی اداروں میں نہ تو کچھ کرنے کی کوئی صلاحیت ہے نہ یہ کچھ کرتے ہیں۔
انہوں نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جو رپورٹیں عدالت میں جمع کروائی گئی ہم نے ساری پڑھ لی ہیں ، لیکن کراچی میں صورتحال تو ویسے کی ویسی ہی ہے، نہ وفاقی حکومت اور نہ ہی بجلی والے کچھ کر رہے ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیاکہ وفاقی حکومت نے نیپرا ایپلٹ ٹریبونل تشکیل دینا تھا اس حوالے سے کیا کیا گیا ہے ؟ جبکہ چیف جسٹس نے کہاکہ وفاقی حکومت اپنی ذمہ داری ادانہیں کر رہی ہے۔
انہوں نے کمرہ عدالت میں موجود متعلقہ حکام کومخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ یہ عدالت کا کام نہیں ہے کہ آپکو بتائے کہ آپ نے اپنا کام کیسے کرنا ہے؟ آپ لوگوں میں اہلیت ہی نہیں ہے اسی لیے آپکو ہائی جیک کیاہوا ہے، کیا آپ کے عہدوں پر رہنے سے کسی پاکستانی کو رتی بھر کا فائدہ بھی ہورہا ہے؟ انہوں نے رپورٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ خالی کاغذوں کا پیٹ بھرنے سے سے کیا ہوتا ہے؟ آپ کو بھی پتہ ہے آپ وہاں پر کیا کر رہے ہیں؟ جب آپ اپنے کام میں خامیاں چھوڑدیتے ہیں تو پھر عدالتوں سے نوٹس آجاتے ہیں۔
فاضل چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ کراچی میں بجلی کا مسئلہ کس حد تک حل ہوا ہے؟ بجلی کا جو مسئلہ چل رہا ہے اس پر کیا کیا جائے؟ آج پھر وہاں پر بجلی کی قیمت بھی بڑھا دی گئی ہے جبکہ متعلقہ اداروں کا آپس میں کوئی رابطہ ہی نہیں ہے۔
انہوں نے استفسار کیا کہ نیپرا اور پاور ڈویژن والے کیا کررہے ہیں؟ جسٹس فیصل عرب نے کے الیکٹرک کے ایم ڈی سے استفسار کیا کہ آپ کراچی میں بجلی کی کیپسٹی کیوں نہیں بڑھاتے ہیں؟جبکہ چیف جسٹس نے ان سے پوچھا کہ آپکا کیا ارادہ ہے؟ کراچی کو کب تک بجلی دینگے؟ جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ کے الیکٹرک والے کہتے ہیںکہ نیپرا کو9 سو میگاواٹ کیپسٹی بڑھانے کی درخواست دی ہوئی ہے، جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ نو سو میگاواٹ کو سسٹم میں شامل کرنے کیلئے نیپرا نے کیا کیا ہے؟
جس پر چیئرمین نیپرا نے جواب دیا کہ کے الیکٹرک نے خود ہی اس عمل کیخلاف ایک عدالت سے حکم امنتاع لیا ہوا ہے، جس پر فاضل چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ کے الیکٹرک کے سربراہ کدھر ہیں؟ انہوں نے سی ای او کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ ابھی تک عہدہ پر ہی ہیں؟
عدالت کو بتایا جائے کے الیکٹرک کا اصل مالک کون ہے؟ جس پر کے الیکٹرک کے وکیل بیرسٹرعلی ظفر نے کہا کہ کے الیکٹرک کے 9 ڈائریکٹرز ہیں، یہ سعودی اور کویتی بزنس گروپوں کا اشتراک ہے، دونوں گروپوں نے چار سو ملین کی سرمایہ کاری کررکھی ہے ،جس پر فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ بالآخر ان گروپوں کے پیچھے اور مزید گروپ ہوں گے آخر میں یہ کمپنی ممبی میں لینڈ کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ جب کمپنی بمبئی سے کنٹرول ہوگی پھر ایسا تو ہوگا؟ خبروں کے مطابق کراچی اور بلوچستان میں بجلی بمبئی سے کنٹرول ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ روز مجھے فون کالیں اورپیغامات آتے کہ کراچی میں دن میں تین بار بجلی جارہی ہے،جس پر علی ظفر نے کہاکہ بمبئی کے شیئر ہولڈر والی خبریں غلط ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے تو اخبار میں خبریں پڑھی ہیں ہمیں اسکے ذرائع کا علم نہیں ہے،جس پر فاضل وکیل نے کہا کہ یہ حقیقت نہیں کہ یہ کمپنی ممبئی والوں کی ہے۔