ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ وقت بے وقت کھانا اور کھانے کے اوقات میں بے ترتیبی انسانی جسم کے لیے ہماری سوچ سے بھی زیادہ نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق سائنسدان کا نئی تحقیق کے بعد کہنا ہے کہ جسم کے ہر خلیے کے اندر 24 گھنٹے کی ایک گھڑی ہوتی ہے جو دوسرے خلیات کے ساتھ شراکت کرتے ہوئے بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شفٹوں میں کام کرنے والے افراد دوسروں کے مقابلے میں بہت جلد موٹاپے اور ذیابیطس وغیرہ کے شکار بن جاتے ہیں۔
اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کے جسم کی اندرونی گھڑیاں ایک دوسرے سے رابطے میں نہیں رہتیں اور اس کی اہم وجہ کھانے کے اوقات میں شدید بے ترتیبی ہے۔
رپورٹس کے مطابق ماہرین کا خیال ہے کہ اس کے اثرات مزید خطرناک بھی ہوسکتے ہیں کیونکہ وقت بے وقت کھانے سے جسم کی اندرونی حیاتیاتی گھڑی (بائیلوجیکل کلاک) شدید متاثر ہوتی ہے۔ اس کی تفصیلات بین الاقوامی تحقیقی جریدے میں شائع ہوئی ہیں۔
ذیابیطس اور میٹابولزم کی ماہر’ ڈاکٹر مچیل لازر‘ اور ان کے ساتھیوں کےمطابق ہمارے دماغ میں حیاتیاتی گھڑی ہوتی ہے جو بدن کے دیگر اعضاء کی بافتوں (ٹشوز) کی اپنی قدرتی گھڑی کے ساتھ کام کرتی ہے۔
ڈاکٹر مچیل نے اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر چوہے کا ایک ماڈل تیار کیا جس کے جگر کے مخصوص خلیات یعنی ہیپاٹوسائٹس کی گھڑی کو بار بار متاثر کیا جاسکتا تھا۔ ماہرین نے نوٹ کیا کہ جوں ہی ہیپاٹوسائٹس کی قدرتی ٹک ٹک خراب ہوئی خون میں کولیسٹرول کی مقدار بڑھنا شروع ہوگئی جوکہ امراض قلب، بلڈ پریشر، ذیابیطس اور فالج وغیرہ کی وجہ بن سکتی ہے۔
اس چھوٹے سے ماڈل سے معلوم ہوا کہ اگر صرف ایک عضو کے خلیات کی قدرتی گھڑی متاثر ہوجاتی ہے تو اس سے کولیسٹرول کی پیداوار بڑھ جاتی ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ جگر کے خلیات متاثر ہونے سے بدن کے دیگر اجسام کے خلیات کے اوقات بھی متاثر ہونا شروع ہوگئے ۔
اس طرح ایک عضو متاثر ہونے سے دیگر اہم اعضا ءبھی خراب ہوسکتے ہیں۔لہذا اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ کھانے کے وقت کا خیال نہ رکھنے سے جسم کے عضو بھی متاثر ہوتے ہیں۔