اس ملک کو دیوالیہ بنانے اور تباہی پر لا کھڑا کرنے میں ہمارے ملک میں بدقسمتی سے رائج ایک روایت کا بڑا ہاتھ ہے۔ جس میں وزارتوں اور دیگر اونچے عہدوں پر فائز لوگ جب حکومت کا حصہ بنتے ہیں تو لوٹ مار مچاتے ہیں۔ طرح طرح کی بدعنوانیاں اور ملکی اثاثوں کی بربادی کرتے ہیں اور بڑی آسانی سے بنا سزا پائے بچ نکلتے ہیں اور آنے والی حکومت بھی ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتی کیونکہ آنے والی حکومتوں کے بھی کچھ وزراء اسی قسم کی کارروائیوں میں ملوث ہوتے ہیں لہٰذا ایک چور دوسرے چور کو تحفظ دیتا ہے۔ خوب شور مچایا جاتا ہے میڈیا اور اخباروں میں کہ بدعنوانوں کو واقعی سزا دی جائے گی، قانون کے ہاتھوں سے بچیں گے نہیں لیکن درحقیقت ان پر کوئی عملدرآمد نہیں ہوتا۔ یہی عمل گزشتہ 60 سالوں سے دہرایا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان کے قدم لڑکھڑا گئے ہیں۔ جہاں 18,000/ارب روپے کی کثیر رقم ہمارے رہنماؤں نے پچھلے 5 سالوں میں لوٹ کر یا تو بیرونِ ملک اکاؤنٹ میں جمع کروا رکھی ہے یا پھر زمینوں کی خریدوفروخت میں یا حصص کے لین دین میں لگا دی ہے۔ جبکہ غریب عوام بھوک سے مر رہے ہیں۔ دو سابق وزرائے اعظم بڑے پیمانے پر بدعنوانی کے مقدموں میں ملوث ہیں اور بہت سے وفاقی وزراء پر بھی بھاری کرپشن کے الزامات پر تفتیش کی جارہی ہے۔موجودہ حکومت بھی اس لوٹ مار کے خلاف کارروا ئی کرنے میں کچھ خاص دلچسپی نہیں لے رہی۔ اس کی یہ عدم دلچسپی اسی سے ظاہر ہے کہ رینٹل توانائی کے منصوبے جس کی وجہ سے توانائی کی شدید قلت نے پاکستان کی صنعت کو برباد کر دیا ہے۔عبوری حکومت نے ان میں سے کسی ایک کے بھی خلاف کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔
کالے دھن کو چھپانے کیلئے بہت سے شاطرانہ منصوبے وضع کئے گئے ہیں، ایسی دولت جو اربوں کھربوں میں ہے اسے زمینی گھٹالوں میں استعمال کیا گیا کیونکہ ایسے پیسے کو زمین و جائیداد کی خریدو فروخت سے بآسانی چھپایا جا سکتا ہے جہاں اصل قیمت کا ایک مخصوص حصہ ہی ظاہر کرنا ہوتا ہے۔ ایک اور گھناؤنا طریقہ گزشتہ سال وضع کیا گیا جس میں کالے دھن کی سرمایہ کاری قانونی طریقے سے حصص کے کاروبار میں لگا دی جائے۔ اس طرح اگر آپ غیر قانونی طریقے اور بدعنوانی کے ذریعے جو بھی دولت کمائیں اسے حصص کے کاروبار میں لگا دیں اور کالے دھن کو سفید کر لیں اور آپ سے اس بارے میں کوئی سوال نہیں کیا جائے گا۔ بہت عرصے سے ہم سب یہ تماشے دیکھ رہے ہیں۔ اس ملک کو برباد کرنے والوں کو اب پکڑا جانا چاہئے اور سزا دی جانی چاہئے۔NAB کو مکمل طور پر سرکاری غلبے سے آزاد کر دینا چاہئے۔ اور بدمعاشوں سے کسی بھی قسم کی باز پرس سے محفوظ رکھنا چاہئے۔ مالیاتی گھٹالوں میں ملوث لوگوں کو بغیر کسی نرمی کے سخت سزائیں سنائی جانی چاہئیں تاکہ دوسرے بھی ایسا کرنے سے گریز کریں کیونکہ انہیں یہ معلوم ہو جائے گا کہ اب قانون سے بچت نہیں ہو سکے گی۔ریاستِ پاکستان کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ انصاف کی بروقت فراہمی میں ناکامی ہے۔ اس وقت تقریباً26 لاکھ کیس عدالتوں کے سرد خانے میں دفن ہیں۔ کوئی بھی ملک اس لاقانونیت کی فضا میں زندہ نہیں رہ سکتا۔ جن لوگوں نے اس ملک کو لوٹا ہے، برباد کیا ہے ان سب کو سبق آموز سزائیں دی جائیں۔
پاکستان اب بھی اس منجدھار سے باہر نکل سکتا ہے اگر وہ کامیابی کے ان چار ستونوں پر توجہ مرکوز کر دے تعلیم ، سائنس و ٹیکنالوجی، جدت طرازی اور انصاف۔ ہمیں نچلی زرعی لاگت سے حاصل معیشت کے شکنجے سے نکل کر علم پر مبنی معیشت کی طرف راغب ہونا ہو گا۔ ہمیں 19سال سے کم عمر کے نوجوانوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے پر توجہ دینی ہو گی اس کیلئے ہمیں اپنی GDPکا کم از کم 7 فیصد حصہ اعلیٰ معیاری تعلیم ،جامعات اور تحقیقی اداروں کو مضبوط بنانے کیلئے مختص کرنا ہو گا تاکہ جدت طرازی پنپ سکے۔ جدید شعبوں میں کام کرنے والی نئی کمپنیوں کی حمایت میں نجی شعبوں میں کی جانے والی تحقیق و ترقی کیلئے ٹیکس کی چھوٹ اور گرانٹس کے ذریعے مناسب قوانین مرتب کرنے ہوں گے، پیشہ ورانہ امداد سے کاروباری منصوبوں کی ترقی کیلئے ٹیکنالوجی پارکوں کے قیام، مالی، قانونی خدمات اور تکنیکی امداد اور اسی قسم کے دیگر اقدامات کیلئے ایک بہت وسیع فنڈ کے قیام کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی نوجوان نسل نہایت ہوشیار اور محنتی ہے انہی میں ہمارا روشن مستقبل پوشیدہ ہے۔ ملک کو ترقی کی راہ پر کس طرح گامزن کیا جا سکتا ہے اس پر 300 صفحات پر مشتمل دستاویز ”تکنیک پر مبنی صنعتی مشاہدہ اور پاکستان کی سماجی و اقتصادی ترقی کیلئے حکمت عملی میری نگرانی میں تیار کیا گیا۔ جسے کابینہ نے اگست 2007ء میں منظور کیا اس میں ان مخصوص منصوبوں کی طرف نشاندہی کی گئی ہے جنہیں اگلے15سالوں میں اہم شعبوں مثلاً زراعت، کپڑا سازی، انجینئرنگ، انفارمیشن ٹیکنالوجی، دوا سازی اور دوسرے خاص شعبے شامل ہیں۔ اس مسودے کی تیاری میں مختلف نجی و سرکاری شعبوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں لوگوں کی مشاورت شامل ہے۔ اس دستاویز میں غربت کے خاتمے، روزگار کے مواقع فراہم کرنے اور قومی دولت میں اضافے کا سبب بننے والے شعبوں میں صنعتوں کے قیام پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ امید ہے کہ اگلے ماہ نئی حکومت ہی اس علم پر مبنی معیشت کے مضبوط سفر پر روانہ ہو گی۔
جناب مہاتر محمد جدید ملائیشیاکے معمار و بانی نے ایک دفعہ مجھ سے کہا کہ تقریباً 30 سال قبل جب میں ملائیشیا کا وزیراعظم بنا تو میں نے یہ تہیہ کر لیا تھا کہ اگر ملائیشیا کی معیشت کو مضبوط کرنا ہے تو قومی اعتبار سے تعلیم کو سب سے زیادہ ترجیح دینا ہو گی لہٰذا ملائیشیا گزشتہ 25سال سے اپنے بجٹ کا 25% حصہ تعلیم پر صرف کرتا ہے۔ اس کے لئے انہیں دوسرے شعبوں کے بجٹ کی کٹوتی کرنی پڑی لیکن یہ ضروری تھا۔ نتائج حیرت انگیز ہیں، اسلامی دنیا سے تمام اعلیٰ ٹیکنالوجی برآمدات کا 86% ملائیشیا اکیلا برآمد کرتا ہے جبکہ باقی کے 56 OIC رکن ممالک صرف14% برآمدات کرتے ہیں۔ ترقی کا راستہ ہمارے سامنے ہے۔ ہمیں اُن بدعنوانوں کو سزا دینی ہو گی جنہوں نے اس ملک کو لوٹا اور اس کی معیشت کو تباہ کر دیا۔ ہمیں علم پر مبنی معیشت کے راستے پر لبیک کرنا ہو گا۔ ہماری اصل دولت اس ملک کے بچے ہیں اس لئے معیاری تعلیم ، تعلیم اور صرف تعلیم پر سرمایہ کاری کرنا ہو گی۔