• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
الیکشن میں اب چند روز باقی ہیں اور اس موقع پر اس کے نتائج کے حوالے سے کچھ بھی قیاس کرنا ممکن نہیں ہے۔ انتخابی ماحول ماضی کی نسبت خاصا تبدیل ہوا ہے جس میں کئی غیر معروف ناموں کے سامنے آنے کے باعث 11مئی کو پیدا ہونے والی صورتحال ناقابل قیاس ہے۔ 2013ء کے انتخابات کئی وجوہ کی بنا پر2008ء کے انتخابات سے مختلف ہوں گے کیونکہ گزشتہ انتخابات میں پیپلزپارٹی نے بینظیر بھٹو کی شہادت کے باعث ہمدردی کا ووٹ حاصل کیا تھا جو اسے اب میسر نہیں ہے۔ آج پیپلزپارٹی قیادت سے محروم ہے، اس نے سیکورٹی صورتحال کے باعث عوامی اجتماعات تک کا انعقاد نہیں کیا اور نہ ہی عوام حمایت کے حصول کیلئے کوئی اور راستہ اختیار کیا ہے۔ اس کا عوامی پیغام بے سمت اور اس کے ٹی وی کے انتخابی اشتہارات ماضی کی بات کرتے ہیں، مستقبل کی نہیں۔ ان اشتہارات میں پارٹی کو بطور شہیدوں کی میراث کے طور پر آویزاں کیا جاتا ہے، جس سے صاف ظاہر ہے کہ پیپلزپارٹی کے پاس عوام کو پیش کرنے کے لئے اور کچھ نہیں ہے۔
پیپلزپارٹی کی انتخابی حکمت عملی علاقائی طور پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پارٹی اپنے مضبوط انتخابی قلعے یعنی سندھ میں شکست خوردہ نظر آرہی ہے اور پنجاب جیسے اکھاڑے میں جہاں وفاقی حکومت بنانے والی جماعت کا تعین ہوتا ہے، وہاں کے اکثر حلقوں میں یہ ہمت ہارچکی ہے، جس کی وجہ سے عوام میں یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ مسلم لیگ( ن)، پیپلزپارٹی کی عوامی مقبولیت میں شگاف ڈال رہی ہے تو دوسری جانب عمران خان کی تحریک انصاف نے بھی پیپلزپارٹی پر دباوٴ ڈالا ہوا ہے۔ انتخابی جائزوں سے یہ بھی عیاں ہے کہ ن لیگ کو ملکی سطح پر سبقت حاصل ہے۔ 2008ء کے انتخابات میں پنجاب میں ن لیگ اور ق لیگ میں ووٹوں کی تقسیم کا فائدہ پیپلزپارٹی کو ہوا تھا، اس وقت ق لیگ کے پاس عوامی وسائل تک رسائی موجود تھی جس کے باعث بڑے پیمانے پر پارٹی میں ٹوٹ پھوٹ نہیں ہوئی تھی اور نواز شریف نے بھی ق لیگ میں چلے جانے والے پارٹی ارکان واپس لینے کی حامی نہیں بھری تھی تاہم اب صورتحال یکسر مختلف ہے، ن لیگ پارٹی چھوڑجانیوالے باغی ارکان کو نہ صرف گلے لگارہی ہے بلکہ بڑی تعداد میں انہیں انتخابی ٹکٹوں سے بھی نوازا ہے۔ لیگی ووٹوں کے یکجا ہونے کا فائدہ اس مرتبہ ن لیگ کو پہنچے گا جبکہ ماضی میں یہ فائدہ پیپلزپارٹی کو پہنچا تھا اور ق لیگ کو شدید انتخابی خسارے کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
قومی اسمبلی کی دوتہائی نشستوں پرتین طرفہ انتخابی معرکہ ہوگا، یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ اس قسم کے انتخابی معرکے میں تحریک انصاف حتمی نتائج پر کس طرح اثر انداز ہوگی۔ اس حوالے سے بھی بحث جاری ہے کہ ن لیگ اور تحریک انصاف میں منقسم ہونے والے ووٹ کس طرح پیپلزپارٹی کو کم مارجن سے انتخابی نشستیں جتوانے میں معاون ثابت ہوں گے۔ کچھ کے خیال میں تحریک انصاف، ق لیگ اور پیپلزپارٹی کے ووٹ بنک کو ضرب لگائے گی کیونکہ وہ ن لیگ سے زیادہ کمزور ہے۔ پیپلزپارٹی کے جیتنے کے کم امکانات کے باعث ہو سکتا ہے کہ پیپلزپارٹی کے حمایتی ن لیگ کو ہرانے کیلئے تحریک انصاف کو ووٹ دیں۔ انتخابات میں نئے اور نوجوان ووٹروں کا ہونا ایک اور غیر یقینی عامل ہے،31فیصد ووٹروں کی عمریں 18سے29سال کے درمیان ہیں اور نصف رجسٹرڈ ووٹر35سال تک کی عمر کیہیں۔گزشتہ ماہ برٹش کونسل کے سروے کے مطابق30سال تک کی عمر کے 62فیصد افراد نے کہا تھا کہ وہ ووٹ ڈالیں گے۔
اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر اس کے نتیجے میں کیا روایتی اندازوں کو ٹھیس پہنچے گی؟ تیسرا غیر یقینیعامل ووٹ ڈالنے کی شرح ہے، اگر یہ شرح 2008ء کی44 فیصد کی شرح سے بڑھ گئی تو اس کے کئی اثرات مرتب ہوں گے۔ جس میں شہری جماعتوں کو بلا امتیاز فائدہ ہوگا۔ الف اعلان مہم سمیت دیگر انتخابی جائزوں کے مطابق ووٹروں کی شرح میں اضافے کا امکان ہے، مذکورہ جائزے کے مطابق ووٹنگ کی شرح 60فیصد رہے گی دیگر جائزوں میں بھی ووٹروں کی شرح میں اضافے کا امکان ظاہرکیاگیاہے۔ مذکورہ سروے کے مطابق ووٹنگ کی شرح 60فیصد رہے گی اگر ایسا ہوگیا تو پھر اس کے کئی حیران کن نتائج مرتب ہوں گے۔ ووٹنگ شرح میں اضافے سے قومی اسمبلی کی تقریباً 100نشستوں کے نتائج میں تبدیلی کا امکان ہے، ان نشستوں کی دوتہائی تعداد پنجاب میں واقع ہے۔ ان نشستوں پر جن پرگزشتہ انتخابات میں سخت مقابلہ ہوا تھا اور جیتنے والے امیدوار انتہائی کم ووٹوں کے فرق سے کامیابہوئے تھے، موجودہ صورتحال میں خاص طور پر ان حلقوں کے انتخابی نتائج ناقابل قیاس ہیں۔
انتخابی نتائج کو مبہم بنانے والا پانچواں عامل وہ امیدوار ہیں جنہوں نے انتخابی ٹکٹ نہ ملنے کے باعث اپنی سیاسی وفاداریاں تبدیل کیں، یہ کس طرح انتخابی نتائج پر اثر انداز ہوں گے، یہ غیر واضح ہے۔ آزاد میڈیا کے ایک عشرے سے زائد کے عرصے تک نشر ہونے سے ووٹرز میں انتخابی عمل کی بابت ایک آگہی پیدا ہوئی ہے اور اب وہ اپنے روایتی آپشنز سے پرواز کرنے پر غور کرسکتے ہیں کیونکہ ان کے پاس متبادل موجود ہیں۔ دو اہم سیاسی جماعتیں شہری اور دیہی علاقوں میں اثرورسوخ رکھنے والے قابل انتخاب نمائندوں کے نیٹ ورکس کے باعث انتخابی نشستیں حاصل کرتی ہیں کیونکہ ان بااثر افراد کا اپنے علاقے، خاندان اور برادری میں اثرورسوخ ہوتا ہے۔ ایسا طرز عمل خاص طور پر دیہی علاقوں میں دیکھنے میں آتا ہے۔ آئندہ انتخابات کیلئے الیکشن کمیشن کی جانب سے امیدواروں کی چھان بین میں بھی خاصی بے ضابتگی کا مظاہرہ کیا گیا ہے ناصرف قرض نادہندہ امیدواروں کو انتخابات میں شرکت کی اجازت دی گئی بلکہ فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک کی رپورٹ کے مطابق تقریباً 40 فیصد انتخابی امیدواروں کے پاس ٹیکس نمبر تک نہیں لہٰذا وہ ٹیکس نادہندہ ہیں، انہیں بھی انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ کئی معلوم اور بے شمار نامعلوم تحرکات کے باعث انتخابی نتائج کے حوالے سے قیاس کرنا مشکل ہے تاہم ایک بات یقینی ہے جو بھی جماعت انتخابات جیتے گی اس کے پاس بھاری اکثریت نہیں ہوگی اور اسے مخلوط حکومت کا سہارا لے کر ملک چلانا پڑے گا۔
تازہ ترین