حیدرآباد کا شمار ان صدیوں پرانے شہر میں ہوتا ہے ۔ یہ شہر ہمیشہ علم و اَدب، فن و ثقافت، سماجی و سیاسی سرگرمیوں اور تعمیر و ترقّی کا گہوارہ رہا ہے، اس شہر کی مٹی میں جہاں محبتوں کی خوشبو رَچی بسی ہے،وہیں بغاوت کے لہراتے پرچم بھی ملتے ہیں۔ اسی شہر میں قدیم عمارتوں کو ملیا میٹ کرنے کا جنون بھی ہےاور فن تعمیرات کے حامل شان دار عمارتوں کو محفوظ رکھنے کا جذبہ بھی ملتا ہے، ایسے ہی جذبوں سے سرشار حیدرآباد کے قدیم باشندے سلاوٹ بھی ہیں جو سنگ تراش کہلاتے ہیں۔ پتھروں کو تراش کر شاہ کار عمارتیں تخلیق کرنے والے یہ سنگ تراش صدیوں سے دُنیا کے کونے، کونے میں رہے اور ان کی تخلیق کردہ عمارتوں و محلّات کو ہمیشہ سے ہی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
برصغیر میں اس فن اور پیشے سے منسلک سنگ تراش خاندانوں کی کثیر تعداد رنگاپور، جودھ پور، اودھے پور، اجمیر، جے پور، نال گڑھ، مدیحہ پردیش، مہاراشٹر سمیت متعدد شہروں میں آباد ہیں۔ جیسل میر میں اس خاندان کا آخری گھرمائی برکت سلاوٹن کا تھا، ان کے انتقال کے بعد اس شہر میں فن سنگ تراشی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا۔ سندھ میں ’’جیسل میر ‘‘سے تعلق رکھنے والے سنگ تراش سب سے پہلے صدیوں کے شہر حیدرآباد میں آئے۔ 1772ء کے دوران حصولِ روزگار کے لیے جیسل میر، سے حیدرآباد کا سفر طے کرنے والے آسو خان پہلے سنگ تراش تھے، بتایا جاتا ہے کہ آسو خان، حیدرآباد میں گھومتے، گھومتے ، یار محمد کلہوڑو کے مقبرے پر پہنچا، جہاں میاں نور محمد کلہوڑو کے حکم پر مقبرے کا تعمیراتی کام جاری تھا، وہ خود اس تعمیراتی کاموں کی نگرانی کر رہے تھے، مگر پہلے سے موجود ایک سنگ تراش پتھر کو غلط تراش رہا تھا، جس پر آسو خان نے انتہائی پیمائش کے بعد پتھر کو دُرست تراشا، جس کی بنا پر آسو خان کو مقبرے کی تعمیرات کے لیے کہا گیا تو انہوںنے کہا کہ ’’مجھے اتنا اچھا کام نہیں آتا، البتہ میرے خاندان کے دیگر افراد اس کام میں خاصی مہارت رکھتے ہیں، چناں چہ جیسل میر ،سے سنگ تراش خاندان کو بلا کر حیدرآباد کے معروف علاقے اور اس شہر کی پہلی پوش آبادی ،ہیرآباد سے متصل اس خاندان کو رہائش کے لیے جگہ فراہم کی گئی۔
جب کہ تاریخی و ثقافتی ورثے کا حامل پکّا قلعہ سے آبادی قلعہ کے باہر مختلف حصوں میں منتقل ہو رہی تھی۔ ان آبادیوں میں گھاس پھونس کی جھونپڑیوں کی جگہ پختہ مکانات تعمیر کیے جانے کا رُجحان بھی بتدریج بڑھ رہا تھا۔ چناں چہ جیسل میر کے سنگ تراشوںکی کثیر تعداد نے حیدرآباد کا رُخ کیا تاکہ اس شہر میں انہیں معقول آمدنی کے علاوہ رہائش کے لیے بہ آسانی جگہ بھی حاصل ہو سکے۔ آہستہ آہستہ اس مقام پر 17 سے زائد سنگ تراشوں کی گوتھیں آباد ہوگئیں، جو بنیادی طور پر ہندو تھے، مگر انہیں پیر صبغت اللہ شاہ راشدی پیر صاحب پگارا المعروف سوریہ بادشاہ نے مشرف بہ اسلام کیا،جو اب حنفی کہلاتے ہیں، بعدازاں ان سنگ تراشوں کے ہنر اور مہارت کو مدنظر رکھتےہوئے انگریزوں نے انہیں رہائش کے لیے پرانے لندن کی طرز پر اراضی الاٹ کر دی اور ان خاندانوں کو عمارت سازی کے کاموں میں شامل کر لیا، جس کی بنا پر کراچی سے لے کر سکھر تک یہ سنگ تراش پھیل گئے۔ انہوں نے 19 ویں صدی کے دوران کراچی میں فریئر ہال، سندھ ہائی کورٹ، میری ویدر ٹاور، ایمپریس مارکیٹ، کراچی پورٹ ٹرسٹ، ریڈیو پاکستان، ہوتی مارکیٹ، ڈی جے کالج، این جے وی اسکول، کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن و دیگر شاندار عمارتیں تعمیر کیں۔
یہ خاندان لیاری ندی کے کنارے 2کلومیٹر رقبے پر محیط رنچھوڑ لائن میں اپنی زندگی کے شب و روز گزار رہے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 2017ء کے اعداد و شمار کے مطابق کراچی میں سلاوٹ خاندان کی تعداد 10 ہزار تھی۔ سکھر میں یہ نیم کی چاڑی کے قریب سکونت اختیار کیے ہوئے ہیں جب کہ حیدرآباد میں ان کی تعداد 16 ہزارسے زائد ہے۔ یہ لوگ آپس میں مارواڑی زبان میں گفتگو کرتے ہیں، لیکن انہیں سندھی اور اُردو زبان پر بھی مکمل عبور حاصل ہے۔ اس برادری کی ایک نمایاں خوبی یہ ہے کہ، یہ مشترکہ خاندانی نظام کے تحت رہتے ہیں اور ایک دُوسرے کے گھروں میں بلا روک ٹوک داخل ہو جاتے ہیں۔ ان کے دُکھ سُکھ، رَسم و رواج سب ہی کچھ مشترکہ ہیں۔ چوں کہ یہ مذہبی رُجحان بھی رکھتے ہیں اس لیے سلاوٹ برادری کی اہم شخصیت خلیفہ عبداللطیف ڈنو نے اپنے رُوحانی پیشوا پیر صاحب پگارا کے لیے خصوصی طور پر اسی سلاوٹ پاڑے میں راجستھانی پتھروں سے ایک محل نما مکان تعمیر کرایا، اس کی تعمیر میں اس اَمر کا خصوصی طور پر خیال رکھا گیا تھا کہ، سوریہ بادشاہ جب حیدرآباد کے اس مکان میں آئے تو وہ بالکنی میں کھڑے ہو کر اپنے مریدوں کا بہ آسانی دیدار کر سکیں۔
علاقہ مکین، سابق طالب علم رہنما منیر سرور سلاوٹ کے مطابق ’’حیدرآباد میں عبداللطیف ڈنو، پیر صاحب پگارا کے خلیفہ خاص تھے، انہیں اپنے پیر و مرشد سے دِلی عقیدت تھی، چوں کہ محلّے کے سب ہی خاندان کے افراد ان کے مرید تھے، چناں چہ سوریہ بادشاہ کے لیے انہوں نے راجستھانی طرز تعمیر کا حامل یہ خوب صورت مکان تعمیر کرایا۔ اس کی محراب، ستون، کناری، سب ہی سلاوٹ برادری کے سنگ تراش کی تخلیق ہے، چوں کہ پیر صاحب پگارا ان کے رُوحانی پیشوا تھے، چناں چہ اس مکان میں نصب پتھر کی تراش خراش باوضو کی گئی۔ مکان کے داخلی دروازے کے ساتھ بالائی منزل پر جانے کے لیے بائیں جانب پتھروں کا زینہ بنایا گیا، اور ان سیڑھیوں کو روشن و ہوادار رکھنے کے لیے تراشیدہ پہاڑی پتھر کی جالی نصب ہے جب کہ دیوار کے بیرونی جانب ایک گنبد نما طاق بنایا گیا ہے، جس کا مقصد اس میں لوبان، صندل کی لکڑی جلا کر پیر صاحب کی آمد پر خوشبو پھیلانا تھا۔ اس عمارت کو محکمہ ثقافت و سیاحت سندھ نے تاریخی و ثقافتی ورثہ قرار تو دیا ہے مگر اس کی تاحال دیکھ بھال، تزئین و آرائش کے کاموں کو نظرانداز کیا ہوا ہے۔ جس کے سبب یہ عمارت مخدوش ہو رہی ہے۔ ضرورت اس اَمر کی ہے کہ وزارت ثقافت و سیاحت سندھ محض مخصوص طبقے کو نوازنے کے لیے فنڈز کی بندر بانٹ کرنے کے بجائے سندھ کے تاریخی ورثوں کی بحالی اور ان کے تحفظ پر خرچ کرے۔‘‘
بہ ظاہر یہ ایک چھوٹا سا مکان ہے، مگر اس مکان میں سوریہ بادشاہ متعدد بار آئے اور ہر بار ان کی آمد کا اعلان سلاوٹوں کے رَسم و رواج کے مطابق کانسی کی تھالی بجا کر کیا گیا۔ 10x10 فٹ کے کمرے میں ان کا قیام ہوتا تھا، اس کی چھت پر خالص سونے کے محلول سے گل کاری کی گئی تھی۔ یہ کمرہ سوریہ بادشاہ کے آئندہ دورے تک کے لیے بند کر دیا جاتا تھا۔ اس مکان میں سوریہ بادشاہ کے قیام کی مدت کے دوران جہاں انواع و اقسام کے کھانے پیش کئے جاتے تھے، وہاں ان کے لئے راجستھانی کھچڑی اور کڑی جب کہ سردیوں کے دنوں میں دریائے سندھ کی پلّا مچھلی، گڑ، مکھن لگی روٹی لازمی شامل ہوتی تھیں۔ تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ، سوریہ بادشاہ نے برصغیر میں انگریز فرنگیوں کے تسلط اور محبِّ وطن لوگوں کو پابندِ سلال کیے جانے کے خلاف اعلانِ بغاوت کر دیا اور سانگھڑ میں اپنی متبادل حکومت قائم کر لی تو انگریزوں نے پیر صاحب پگارا کو گرفتار کرلیا اور انہیں حیدرآباد کی سینٹرل جیل میں قید کر دیا، جس کے نتیجے میں حیدرآباد سمیت سانگھڑ، راجستھان و دیگر علاقوں میں انگریزوں کے خلاف شدید غم و غصّے کی لہر دوڑ گئی، اور ان کے مرید جو خود کو فقیر یا حُر کہلاتے ہیں، ان کی کثیر تعداد نے جیل کا گھیرائو کر لیا، ان میں سلاوٹ پاڑے کے مریدین بھی شامل تھے۔ جیل کا گھیرائو کرنے والے ان حُروں کو اسی سلاوٹ پاڑے کے مکین اشیائے خورو نوش اور ادویاتوغیرہ پہنچاتے تھے۔
لیکن جب کئی دن سوریہ بادشاہ کو قید رکھنے کے بعد انگریزوں نے انہیں تختۂ دار پر چڑھا دیا تو سلاوٹ پاڑے میں واقع اس خوب صورت محل پر اُداسی کے مہیب سائے پھیل گئے۔ اس عمارت کے قریب سے گزرنے والے راہ گیروں کو یوں لگتا تھا کہ گویا اس عمارت کے بام و دَر اپنے واحد مکین کی محبت اور یاد میں آنسوئوں کا نذرانہ پیش کر رہی ہو، یہ ہی نہیں بلکہ سوریہ بادشاہ کی پھانسی کے بعد حیدرآباد سمیت دُور دراز علاقوں سے ان کے مریدین ہر روز اس پیلے پہاڑی پتھروں سے بنی عمارت کے سامنے جمع ہوتے اور یادوں کے دریچے سے اپنے رُوحانی پیشوا کو خراج عقیدت پیش کرتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد یہ عمارت معمولی کرائے پر لوگوں کو دی گئی، ان ہی میں پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما غلام دستگیر ایڈووکیٹ بھی تھے ،جن کی بیٹی حنا دستگیر نا صرف اسی مکان میں پیدا ہوئیں بلکہ اپنے سیاسی سفر کا آغاز بھی یہیں سے کیا۔
اس مکان کے اب تک آخری کرائے دار اور سلاوٹ برادری کی گوتھ چوہان سے تعلق رکھنے والے انجم حیدر کے مطابق ’’اس تاریخی عمارت کو محکمہ ثقافت و سیاحت نے ورثہ تو قرار دے دیا ہے لیکن اس پر کبھی توجہ نہیں دی گئی، اس کی وہ چھت جو سونے کے محلول سے مزیّن تھی۔ اسے حوادثِ زمانہ نے اس قدر مخدوش کر دیا کہ اس کا پلاستر اُکھڑ کر گرنے لگا، چھت کی لکڑیوں میں دیمک لگ چکی ہے، اس عیب کو چّھپانے کے لیے چھت پر فارسیلنگ کرائی گئی، مگرحالیہ بارش نے اسے بھی نقصان پہنچادیا۔ اس کے کھڑکی اور دروازے ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں۔ دیواروں میں جا بجا دراڑیں پڑ گئی ہیں۔ اس کے باوجود اس کمرے کا کرایہ 2ہزار روپے ہے۔ حکومت سندھ کو چاہیے کہ اس عمارت سمیت حیدرآباد کی دیگر ورثہ قرار دی جانے والی عمارتوں کو محض ورثہ قرار نہ دیا جائے بلکہ ایسی تمام عمارتوں کی ترجیحی بنیادوں پر بحالی، تزئین و آرائش کے کاموں پر بھی توجہ مرکوز کرے، تاکہ حیدرآباد میں سیاحت کو فروغ حاصل ہو سکے۔
حیدرآباد کو یوں تو اپوزیشن جماعتوں اور تحریکوں کا مرکز کہا جاتا ہے لیکن اس کی ایک منفرد شناخت علم و اَدب، فن و ثقافت کی حامل سرگرمیاں بھی ہیں۔ اس شہر میں کبھی معیاری اَدب تخلیق ہوا کرتا تھا، نت نئے خیالات کو حقیقی پیرہن دینے کے لیے ادباء، شعراء کی محفلیں گھروں، اوطاقوں کے بجائے ہوٹلوں میں سجتی تھیں۔ ان ہوٹلوں میں کیفے ڈی پیرس، کراچی ہوٹل، نعمت کدہ بخارا، ایرانی ہوٹلوں کے علاوہ المعروف شاہراہ کوہِ نور سینما چوک کے کونے اور اورنگ زیب مسجد سے متصل سلطان ہوٹل شامل تھے۔ چائے کی پیالی میں ہر روز طوفان بپا کرنے والے شعراء ادباء کے علاوہ فن کاروں کی کثیر تعداد ہمہ وقت موجود ہوتی تھی۔ اسی ہوٹل میں ریڈیو پاکستان حیدرآباد سے وابستہ صداکار محمد علی نے فلموں کا رُخ کیا، اسی ہوٹل میں رکھی ساگوان کی کرسیوں اور میزوں کے گرد بیٹھ کر معروف شاعر حمایت علی شاعر نے فلمی گیت لکھے، شاعر و ادیب اور صحافی اُستاد اختر انصاری اکبر آبادی نے اَدبی مجلہ نئی قدریں کی اشاعت کے لیے منصوبہ بندی کی اور تادم مرگ وہ کامیابی سے اس مجلّے کا اجراء کرتے رہے۔ اسی ہوٹل میں شاعر و سیّاح حسن ظہیر، سلطان جمیل نسیم، قابل اجمیری، محسن بھوپالی کی دوستیاں مضبوط رشتوں میں استوار ہوئیں۔
حسن ظہیر نے اپنی کتاب ’’منزلیں‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’شہر کی آبادی اتنی زیادہ نہیں تھی، اسٹیشن کو جانے والے راستے پر اِکّا دُکّا تانگے چلا کرتے تھے۔ شام کے وقت ان تانگوں میں جتے گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز دُور سے سُنائی دیتی تھی۔ گرمیوں کے دنوں میں ہم سب دوست سلطان ہوٹل میں اکٹھا ہوتے اور چائے کی ایک ایک پیالی پی کر ٹھنڈی سڑک کی جانب پیدل ہی نکل کھڑے ہوتے تھے۔ یہ ہوٹل دراصل شاعروں، اَدیبوں اور فن کاروں کی جنت کہلاتا تھا۔ اس کے دو دروازے تھے، جن میں ایک مشرق اورکہ دُوسراجنوب کی سمت تھا۔ اس لیے حیدرآباد کی سُرمئی شاموں اور ٹھنڈی ہوائوں میں یہاں چائے کے ساتھ گپ شپ کرنے کا لطف ہی منفرد تھا، جو آج بھی ہمارے احساس پر برکھا بن کر برستی محسوس ہوتی ہے‘‘ سلطان ہوٹل کو ورثہ قرار دیئے جانے کے باوجود کیوں ختم کر دیا گیا؟ یہ وہ سوال ہے جو حیدرآباد کے ہر باشعور شہری کے ذہنوں میں اُبھرتا ہے۔ اپنے وقت کا یہ ہوٹل لاہور کے کافی ہائوس کی طرز کا رہا، اور جب تک قائم رہا، لوگ اس کی چائے پیئے بغیر اپنی منزلوں کی جانب ایک قدم بھی آگے بڑھنے کو قطعی طور پر تیار نہیں ہوتے تھے۔ اس ہوٹل میں یوں تو ساگوان کی لکڑی کا فرنیچر تھا، مگر اس کے داخلی دروازہ (جنوبی سمت) کے اُوپر پاکستان کا پرچم بنوایا گیا تھا، جس کے عین نیچے پہاڑی پتھر کو ترشوا کر سلطان ہوٹل کا نام لکھوایا گیا۔
1980ء کی دہائی کے دوران ہوٹل کے دونوں دروازوں کے ساتھ الیکٹرونک دُکان، اخباری اسٹال، بک ڈپو کے لیے جگہ کرائے پر دے دی گئی، اندرون سندھ سے ریشم بازار خریداری کے لیے آنے والی خواتین کے لیے ہوٹل کی بالائی منزل پر علیحدہ بیٹھنے کا انتظام تھا، 1986 کے بعد یہ ہوٹل سیاسی جماعت کے کارکنوں کی آماجگاہ بن گیا اور پھر آہستہ آہستہ اس میں ویرانی چھانے لگی۔ خوش گپیاں، مستقبل کی روشن منصوبہ بندی، علم و اَدب کی ترویج کے لیے گرما گرم مباحثے سب ہی کچھ ختم ہوگئے۔ آج یہ ہوٹل ماضی کی تلخ و شیریں یادوں کو زندہ رکھنے کے لیے زمین کے سینے پر موجود توہے، مگر ایک لاش کی مانند محسوس ہوتا ہے ،کیوں کہ عمارتوں کی اپنی ہی زبان ہوتی ہے وہ اپنے کرب احساسات کو بتاتی ضرور ہیں لیکن ان کی آوازوں کو بدعنوان اور بے حس لوگ کب سُنتے ہیں۔
چھک، چھک، چھک کرتی ریل گاڑی کے انجن کی سیٹی یوں تو ہر شخص نے زندگی میں لازمی سُنی ہوگی، پٹری پر مخصوص رفتار سے دوڑنے والی ٹرین کے ساتھ دیہاتی بچّے، ہر لمحے تبدیل ہونے والے مناظر، جس کسی نے دیکھے، وہ انہیں کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔ سندھ میں کراچی تا کوٹری، بعدازاں حیدرآباد تا پنجاب انگریزوں نے ہی ریلوے نظام قائم کیا، اس وقت جودھ پور کے ایک راجہ، رانا پرتاب سنگھ کی جودھ پور تا حیدرآباد براستہ میرپورخاص ٹرین چلتی رہی، جسے حرف عام میں ’’راجہ کی ٹرین‘‘ کہا جاتا تھا۔ یہ ٹرین سندھ کے قدیم شہر نصرپور کے کنوئوں سے راجہ، وزراء، مشیروں اور امراء کے لیے پینے کا پانی، جب کہ حیدرآباد کے باغات سے سبزیاں، پھل و دیگر اجناس لے جایا کرتی تھی۔ ٹرین کا آخری جنکشن حیدرآبادتھا۔ حیدرآباد میں پکّا قلعہ سے متصل اراضی پر جودھ پور کے راجہ نے مغل، گوتھک اور راجستھانی طرز کی حامل عمارت تعمیر کرائی، بعدازاں انگریزوں نے جب ریلوے لائن بچھائی تو اس جنکشن کے ایک کمرے کو مسافروں کی مطلوبہ ٹرین کی آمد تک انتظار گاہ بنا دیا گیا، جس میں موسم کے تغیرات اور حشرات کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رہنے والی ساگوان کی لکڑی کا فرنیچر رکھا گیا۔
نیز گول میز، کرسیاں، ضعیف مسافروں کے سستانے کے لیے کرسی نما مسہری، آرائش گیسو یا حلیے کی دُرستی کے لیے لکڑی کے فریم میں نصب آئینہ شامل ہے۔ 100 سال پرانے فرنیچر کی حالت اب بھی روزِ اوّل کی طرح ہے۔ اس انتظارگاہ میں قیام پاکستان کے بعد مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کی ٹرین مارچ کے دوران اخبار و جرائد اور الیکٹرونک میڈیا کے نمائندوں کی بات چیت کا اہتمام بھی اسی انتظارگاہ میں ہوتا رہتا ہے، جس کے سبب ٹرین کے دیگر مسافروں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ درجہ دوئم کے مسافروں کی انتظارگاہ سے متصل درجۂ اوّل ایئرکنڈیشنڈ گاڑیوں کی خواتین مسافروں کے لیے دُوسرے کمرے میں انتظارگاہ بنا دی گئی، لیکن حیدرآباد سے چوں کہ کوئی ایئرکنڈیشنڈ گاڑی کسی بھی شہر کے لیے نہیں چلتی، اس لیے اس انتظارگاہ پر تالا لگا دیا گیا۔ جب کہ درجۂ د وئم انتظارگاہ میں مردوں کے علاوہ خواتین بھی ایک ساتھ ہی بیٹھی دکھائی دیتی ہیں۔ حیدرآباد ریلوے کے اسٹیشن ماسٹر محمد رمضان کے مطابق ’’حیدرآباد ریلوے اسٹیشن پر واقع دونوں انتظارگاہوں کا فرنیچر تقریباً 100 سال پرانا ہے، جسے حیدرآباد کے مقامی میوزیم میں رکھا جا سکتا ہے۔
پہلے درجہ دوئم میں فرنیچر تھا جسے درجہ اوّل کے انتظارگاہ کے لیے مخصوص کر دیا گیا۔ عموماً ہر مسافر ٹرین کی آمد سے قبل کم سے کم 15 مرد و خواتین اس انتظار گاہ سے استفادہ کرتے ہیں۔ چوں کہ اس انتظارگاہ کا فرنیچر ایک صدی سے مسافروں کے زیراستعمال رہا، اس لیے الماریاں، کرسیاں میزیں ٹوٹ پھوٹ گئی تھیں، جن کی مرمت کے لیے لاہور ہیڈآفس بھجوایا گیا، مگر تاحال مرمت ہو سکیں اور نا انہیں واپس حیدرآباد بھیجا گیا ۔ نئے فرنیچر کی فراہمی کے لیے محکمہ ریلوے کے مرکزی دفتر کو متعدد مکتوب ارسال کیے جا چکے ہیں۔ اُمید ہے کہ جلد ان انتظارگاہوں کو نیا فرنیچر دستیاب ہو جائے گا۔ جب کہ پرانا فرنیچر جو یقیناً ایک ورثہ ہے اس کو آئندہ نسلوں کی آگہی کے لیے محفوظ بنانا چاہئے، بالکل اسی طرح جس طرح پاکستان ریلوے نے راجا کی ٹرین کے انجن کو حیدرآباد ریلوے اسٹیشن سے باہر ایک مونومنٹ کے طور پر کھڑا کر دیا گیا‘‘
فیض محل کا نام سُنتے ہی ذہنوں کے قرطاس پر ریاست خیرپور کا نقشہ اُبھرتا ہے، جو میر مراد علی تالپور کی راج دھانی تھی۔ اس کو قیام پاکستان سے قبل بانئی پاکستان قائداعظم محمد علی
جناح سے ایک معاہدے کے تحت پاکستان میں شامل کیا گیا۔ گمبٹ ضلع خیرپور پرانا شہر ہے۔ اس شہر کی تاریخ 1759ء سے شروع ہوتی ہے۔ سندھ کے حکمراں میاں غلام شاہ کلہوڑو کے دور حکومت میں گمبٹ کو تعلقہ کا درجہ حاصل تھا۔ 1781ء کے دوران اس شہر میں پیر جیلانی کی درگاہ تعمیرہوئی۔ 1876ء کے دوران ای ڈبلیو ہیوز کے گزیٹیئر کے مطابق گمبٹ کی 1844ء میں آبادی محض 300 خاندان تھی اور 1876ء میں یہ آبادی بڑھ کر 4537 ہوگئی۔ 1907ء میں شائع ہونے والے ای ایچ اٹیٹکن کے گزیٹیئر کے مطابق گمبٹ کو سب ڈویژن کی حیثیت حاصل ہوئی ، اس وقت شہر کی آبادی 6707 خاندانوں تک پہنچی، آبادی کی تعلیمی ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے 1904ء میں گمبٹ شہر میں مرکزی پرائمری اسکول قائم ہو چکا تھا۔ بعدازاں جیسے جیسے آبادی میں اضافہ ہوا، مزید اسکول کی ضرورت درپیش ہوئی، چناں چہ 1937ء کے دوران سُرخ اینٹوں سے مقامی ہندوئوں نے اسکول قائم کیا، جس کے داخلی دروازے پر ایک تختی نصب کی جس پر ’’شری 108 سوامی کیرو اچاریہ سناتن دھرم ودیالہ گمبٹ 1929ء‘‘ لکھا ہے۔
اس اے وی اسکول کا سنگِ بنیاد خیرپور ریاست کے وزیر اعجاز علی خان بہادر نے 1937ء میں رکھا۔ یہ اسکول دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پرانی عمارت گمبٹ میں ودیالہ اسکول کے نام سے معروف ہے جب کہ اسی قدیم اسکول کی عمارت کے مدمقابل نئی عمارت بنائی گئی ہے۔ اسکول میں مجموعی طور پر 16 سو سے زائد طالب علم زیرتعلیم ہیں۔ ودیالہ اسکول کی عمارت کو ورثہ قرار دیا گیا ہے، مگر اس کی بھی حالت حیدرآباد سمیت سندھ کی لاتعداد ان عمارتوں سے بھی اَبتر ہے، جنہیں محکمۂ ثقافت و سیاحت سندھ نے ورثہ قرار دیا ہے۔ کلاسوں کے کھڑکی دروازے غائب ہیں۔ گرمیوں کے دنوں میں عموماً گمبٹ میں گھنٹوں بجلی کی اعلانیہ و غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ کے دوران طالب علم پسنوں میں شرابور، حبس زدہ ماحول میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ پینے کا پانی اسکول میں کسی قیمتی شے کےمترادف ہے۔ اس لیے طالب علم بوتلوں میں اپنے گھروں سے پانی لاتے ہیں۔
کلاسوں کی بنچیں ٹوٹ گئیں تو اساتذہ نے محکمہ تعلیم کو فرنیچر کی فراہمی کے لیے لکھا، مگر اس جانب توجہ نہیں دی گئی چناں چہ اساتذہ نے اپنی مدد آپ کے تحت 50 بنچیں اسکول کو عطیہ کیں، تاکہ تعلیم کی فراہمی میں رُکاوٹیں دُور ہو سکیں۔ اسکول کی قدیم عمارت میں جابجا دراڑیں پڑی ہیں۔ مکڑی کے جالے اسکول کے ماحول کو آسیب زدہ بناتے ہیں۔ لیکن محکمہ تعلیم کے افسران کی آمد سے قبل اسکول میں صفائی ستھرائی کا کام کر دیا جاتا ہے۔ بہ صورت دیگر گرد و غبار ہر سو محسوس ہوتی ہے۔ اسکول کے طلباء نے حکومت سندھ سے مطالبہ کیاہے،کہ قدیم ودیالہ اسکول کی تزئین و آرائش کے علاوہ اسکول میں بجلی کی فراہمی کے لیے سولرز سسٹم نصب کیا جائے تا کہ طالب علم پُرسکون ماحول میں اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔
عمارتیں، تاریخی و قیمتی نوادرات آئندہ نسلوںکو ماضی کی داستانیں سُناتی ہیں۔ انہیں گزشتہ لوگوں کے رہن سہن سے آگاہ کرتی ہیں۔ مہذب قومیں کبھی اپنے ماضی کو فراموش نہیں کرتیں، لیکن حیدرآباد سمیت سندھ کا المیہ یہ ہے کہ اس کی تاریخ کے صفحات سے ماضی کے باب کو ایک منصوبہ بندی یا ساز کے تحت مٹایا جا رہا ہےیا ہمیشہ کے لیے نیست و نابود ہونے کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ ان میں سلاوٹ پاڑے میں واقع عبداللطیف ڈنو کا مکان ہو یا وفاقی حکومت کے زیرانتظام پاکستان ریلوے حیدرآباد کی انتظار گاہیں ہوں، یا پھر گمبٹ کا ودیالہ اسکول۔ کون ہے جو ان بولتی عمارتوں کی آواز کو سُننے والا؟ شاید کوئی نہیں……!