محمد طفیل
علامہ اقبال نوجوانوں کو سخت کوش بنانا چاہتےتھے۔ وہ مسلم نوجوانوں کو ایک عقاب کی مانند دیکھنا چاہتےتھے۔ جو شاہی محلوں کی بجائے پہاڑوں کی چٹانوں میں بسر کرتا ہے۔ اور یہ سخت کوشی اسے تمام پرندوں کا بادشاہ بنا دیتی ہے۔ یہ اس کی قوت اور تیز نگاہی ہی ہے جو اسے تمام پرندوں سے ممتاز کرتی ہے۔ یہ صفات اس نے مشقت اور محنت سے حاصل کی ہیں علامہ اقبال نے مسلم نوجوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا :
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
علامہ اقبال نئی نسل کو امیرانہ طریق کا شائع نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ رزق حلال کمایا جائے کیونکہ حرام کی کمائی سے خودی کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ خودی دولت اور آسائش سے پروان نہیں چڑھتی، امیری کی بجائے غریبی اسے راس آتی ہے۔ وہ شخص جو دولت کے عوض اپنی ذات کا سودا کر لیتا ہے وہ کس قد رگھاٹے میں رہتاہے۔ وہ اپنے بیٹے جاوید سے کہتے تھے جو نئی نسل کا نمائندہ تھے:
مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
امیری اور سیم و زر کی بجائے غیرت اور جسارت انسان کی دولت ہوتی ہے۔ مسلمانوں کا زوال بے زری سے نہیں بلکہ خودی کے گنوانے سے پیدا ہوتا ہے:
اگر جواں ہوں مری قوم کے جسور و غیور
قلندری مری کچھ کم سکندری سے نہیں
سبب کچھ اور ہے تو جس کو خود سمجھتا ہے
زوال بندہ مومن کا بے زری سے نہیں
اگر جہاں میں مرا جوہر آشکارا ہوا
قلندری سے ہوا ہے تونگری سے نہیں
علامہ اقبال کے نزدیک نئی نسل قوم کا بہت قیمتی سرمایہ ہیں۔ دولت اور سونے چاندی کو وہ کوئی اہمیت نہیں دیتے ۔ ان کے خیال میں تندرست نوجوان ہی کسی قوم کے مستقبل کو تابناک بنا سکتے ہیں۔
قوم را سرمایہ اے صاحب نظر
نیست از نقد و قماش و سیم و زر
مال او فرزند ہائے تندرست
تر دماغ و سخت کوش و چاق و چست
وہ چاہتےتھے کہ نئی نسل کی تربیت بڑے عمدہ طریق پر ہو ،کیونکہ اگران کی تربیت درست انداز پر نہ ہو گی تو قوم کا مستقبل تباہ ہو جائے گا۔گھرمیں ماں کااثر سب سے زیادہ ہوتا ہے لہٰذا مائوں کو چاہیے کہ وہ بچوں کی تربیت اس انداز سے کریں کہ وہ اعلیٰ کردار کے مالک بن جائیں:
سیرت فرزند ہا از امہات
جوہر صدق و صفا از امہات
اقبال تو نئی نسل سے مطالبہ کرتے کہ وہ زندگی کی حقیقت کو سمجھے اور اپنے آپ کو تلاش کر لے۔ اپنے آ پ کو پا کر ہی ہم کائنات کے اسرار ورموز کو سمجھ سکتے ہیں، چنانچہ وہ شیخ مکتب سے تقاضا کرتے کہ علم ہی نہ سکھائے بلکہ دل کی کشادگی کا سامان بھی پیدا کرے، مگر افسوس کہ اس کے طریقے دل کے لیے سامان موت ثابت ہو رہے ہیں:
شیخ مکتب کے طریقوں سے کشاد دل کہاں
کس طرح کبریت سے روشن ہو بجلی کا چراغ
چنانچہ وہ طالب علموں سے کہتے، کہ وہ صرف کتاب خواں ہی نہ بنیں بلکہ صاحب کتاب بھی بنیں وہ الفاظ کے چکر سے نکل کر اپنی روح میں طوفان پیدا کریں:
خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے ،مگر صاحب کتاب نہیں
علامہ اقبال چاہتے تھے کہ نئی نسل انگریزوں کی نقالی کرنے کی بجائے اپنی انفرادیت قائم رکھے۔ آج بھی ہم یورپی تہذیب اور یورپی مصنوعات پر فخر کرتے ہیں۔ ہم ہر چیز کے لیے یورپ کی طرف دیکھتے ہیں۔ ہر قوم کو اپنی عقل اورقوت بازو پربھروسہ کرنا چاہیے۔ چین والوں نے اپنے آپ کو پہچانا اور اپنی ذات پر بھروسہ کرنا سیکھا تو وہ دنیا کی ایک بڑی قوت بن گئے، مگر ہماری نگاہیں ہر وقت یورپ اور امریکہ کی طرف ہی اٹھتی ہیں۔
علامہ اقبال یور پ کی طرف صرف اشیاء کی درآمد کے خلاف ہی نہ تھے بلکہ وہ علوم کی درآمد کو بھی ناپسند کرتے تھے۔ علم کا حاصل کرنا بری بات نہیں ہے، انہوںنے خود مغربی علو م حاصل کیے تھے، مگر ہمارے نوجوان جب مغرب سے تعلیم حاصل کر کے آتے ہیں تو اپنی خود ی کو ختم کر کے خود بھی مغربی بننا چاہتے ہیں۔ وہ نظریات اعتبار سے مغرب کے غلام ہو جاتے ہیں۔ اس سے تو بہتر تھا کہ وہ ایسی تعلیم حاصل ہی نہ کریں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں تعلیم یافتہ اور ڈگری یافتہ افراد بے شمار ہیں،مگر قوم پھر پستی کے گڑھے میںگری ہوئی ہے۔ ان لوگوں نے الفاظ تو یاد کر لیے ہیں، مگر علم کی روح سے نا آشنا ہیں وہ برگساں اور ہیگل کے غلام بن گئے ہیں۔
جاوید نامہ کے آخر میں نظم خطاب بہ جاوید لکھی ، جس کا ذیلی عنوان سخنے بہ نژاد نو ہے، جس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ جب وہ جاوید سے خطاب کر رہے ہیں تو درحقیقت ان کی مراد نئی نسل ہی ہے۔ اس نظم میںوہ کہتے ہیں:
نوجواناں تشنہ لب خالی ایاغ
شستہ رو تاریک جاں روشن دماغ
کم نگاہ و بے یقین و نا امید
چشم شاں اندر جہاں چیزے ندید
کم خور و کم خواب و کم گفتار باش
منکر خود نزد من چوں پرکاش باش
منکر حق نزد ملا کافر است
منکر خود نزد من کافر تراست
در رہ دیں سخت چوں الماس زی
دل بہ حق بند و بے وسواس زی
تعلیم یافتہ نوجوان، قلم اُٹھائیں اور لکھیں درج ذیل عنوان پر:
زندگی، تجربات کا دوسرا نام ہے۔ ہر انسان کی زندگی میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں، جن سے کچھ سیکھ لیتے ہیں، کچھ ٹھوکر کھا کر آگے چل پڑتے ہیں، پچھتاتے اُس وقت ہیں، جب کسی مسئلے سے دوچار ہوجاتے ہیں، مگر حل سمجھ نہیں آتا۔ دکھ سکھ، ہنسی خوشی، یہ سب زندگی کے رنگ ہیں، جن سے کھیلا جائے تو بہت کچھ حاصل ہوتا ہے۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ، آج کا نوجوان زندگی سے مایوس ہوتا جا رہا ہے۔ ایک تجربے کے بعد دوسرا تجربہ کرتا ہے، جب پے در پے ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ لیکن زندگی کے تجربات بہت کچھ سکھاتے ہیں۔
ہم نے آپ کے لیے ایک سلسلہ بعنوان،’’ہنر مند نوجوان‘‘ شروع کیا ہے، اگر آپ تعلیم یافتہ ہنر مند نوجوان ہیں تو اپنے بارے میں لکھ کر ہمیں ارسال کریں، ساتھ ایک عدد پاسپورٹ سائز تصویر اور کام کے حوالے سے تصویر بھیجنا نہ بھولیں۔اس کے علاوہ ایک اور سلسلہ ’’میری زندگی کا تجربہ‘‘کے نام سے بھی شروع کیا ہے، جس میں آپ اپنے تلخ وشیریں تجربات ہمیں بتا سکتے ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ آپ کے تجربات یا تجربے سے دیگر نوجوان کچھ سیکھ لیں۔
ہمارا پتا ہے:
’’صفحہ نوجوان‘‘ روزنامہ جنگ، میگزین سیکشن، اخبار منزل،آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔