• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان نے زندگی کے تلخ ایام کے بارے میں بتادیا

پاکستان کے موجودہ وزیراعظم اور کینسر اسپتال شوکت خانم کی بنیاد رکھنے والے عمران خان نے والدہ کی کینسر سے جنگ اور اس دوران پیش آنے والے واقعات کا تذکرہ اپنی حالیہ سوشل میڈیا پوسٹ میں کیا ہے۔

انہوں نے اپنے انسٹاگرام پر ایک طویل پوسٹ شیئر کی جس میں انہوں نے 1984 میں  پیش آنے والے ایک واقعے کو بیان کیا۔

عمران خان نے ایک معمر مریض کے ہمراہ تصویر شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ یہ 1984 کا واقعہ ہے کہ جب میری والدہ شوکت خانم کینسر کی تشخیص کے بعد شدید تکلیف میں مبتلا تھیں۔

انہوں نے لکھا کہ والدہ کے علاج معالجے کے سلسلے میں لاہور کے میو اسپتال میں ایک ڈاکٹر سے ملنے گیا، اسپتال پہنچ کر ڈاکٹر سے ملاقات کا انتظار کرنے لگا۔

عمران خان نے کہا کہ میں وہیں انتظار میں بیٹھا تھا کہ ایک بوڑھے شخص کو چہرے پر مایوسی اور ہاتھ میں ایک پرچی تھامے اپنے سامنے سے گزرتے دیکھا۔

’اُس کی حالت اور میری اور میرے اہل خانہ کی حالت ایک جیسی تھی، اس کے چہرے پر اس کے دل کا حال عیاں تھا۔ میں اور میری فیملی بھی اس غم اور پریشانی میں مبتلا تھے جس کی باعث میں فوراً ہی اس کی پریشانی بھانپ گیا‘

عمران خان نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’اُس بوڑھے شخص نے ایک ہاتھ میں دوائیں اور ایک ہاتھ میں کوئی پرچی تھام رکھی تھی، چہرے پر تذبذب کی کیفیت لیے پڑھنے سے قاصر اس معمر شخص نے وہاں موجود ڈاکٹر کے معاونین سے پوچھا کہ کیا انہیں جو دوائیں درکار ہیں وہ تمام مل گئیں ہیں، کیا اندر موجود مریض کو کچھ اور تو نہیں چاہیئے؟‘

ڈاکٹر کے اسسٹنٹ نے اسے بتایا کہ پرچی میں لکھی گئی دواؤں میں سے ایک کم ہے ، بوڑھا آگے سے سوال کرتا ہے کہ یہ دوائیں خریدنے میں کتنا خرچ آئے گا؟


جب اسسٹنٹ نے اسے دوائی کی قیمت بتائی تو ایک مایوسی اور نا امیدی اس بوڑھے شخص کے چہرے پر پھیل گئی اور وہ بغیر کچھ کہے مُڑ کر چلا گیا۔

عمران خان لکھتے ہیں کہ ’اس شخص کے جانے کے بعد میں نے اسسٹنٹ سے پوچھا کہ اس شخص کو کیا پریشانی لاحق ہے، جس پر مجھے معلوم ہوا کہ نوشہرہ سے تعلق رکھنے والا یہ پشتون شخص کینسر میں مبتلا اپنے بھائی کے علاج کی غرض سے یہاں موجود ہے۔‘

اسسٹنٹ نے عمران خان کو بتایا کہ ’معمر شخص کا بھائی کینسر سے نبردآزما تھا تاہم اسپتال میں جگہ اور بستر نہ ہونے کے باعث راہداری میں ہی علاج کروایا جارہا ہے۔‘

اسسٹنٹ نے یہ بھی بتایا کہ ’یہ شخص سارا دن قریبی تعمیراتی سائٹ پر مزدوری کرتا ہے اور باقی وقت اپنے بھائی کی دیکھ بھال کرتا ہے۔‘

عمران خان نے اپنی زندگی میں پیش آنے والے اس واقعہ کا خلاصہ لکھتے ہوئے بتایا کہ یہ وہ وقت تھا کہ جب میں اور میری فیملی تمام تر وسائل ہونے کے باوجود بھی سفاکی، بیتابی اور عجیب طرح کے خوف کا شکار تھے تو اس معمر شخص پر کیا گزر رہی ہوگی۔

انہوں نے لکھا کہ اپنی والدہ کی بیماری اور علاج کے دوران میں مسلسل اس شخص کے بارے میں سوچتا اور اللّٰہ کا شکر ادا کرتا۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ آج بھی اس بوڑھے شخص کا چہرہ آنکھوں کے سامنے آتا ہے۔


واضح رہے کہ عمران خان نے اپنی والدہ کے نام پر ہی کینسر کے علاج کے لیے مشہور شوکت خانم اسپتال بنایا، عمران خان اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے ہیں جبکہ ان کی 4 بہنیں ہیں۔

خیال رہے کہ عمران خان سوشل میڈیا پر متحرک رہتے ہیں، عمران خان اپنے سوشل میڈیا پیغامات میں اپنے دورِ جوانی کو یاد کرتے دکھائی دیتے ہیں یا زندگی کے بیتے ایام کو اپنے مداحوں کے ساتھ شیئر کرتے ہیں۔

اس سے قبل عمران خان نے والدہ شوکت خانم اور بہن کے ہمراہ لی گئی ایک یادگار تصویر شیئر کی تھی، عمران خان کے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر شیئر کی گئی تصویر میں بتایا گیا تھا کہ یہ تصویر 1979 میں لی گئی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان تصویر میں والدہ اور بہن کے ہمراہ خوشگوار موڈ میں کسی پارک میں کھڑے دکھائی دیے۔

تازہ ترین