• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عدالت عظمیٰ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر کیے گئے صدارتی ریفرنس کو چیلنج کرنے والی آئینی درخواستوں پر گزشتہ روز سنائے گئے اپنے تفصیلی فیصلے میں نہ صرف یہ کہ صدارتی ریفرنس کو آئین و قانون کی سنگین خلاف ورزی قرار دیااورصدر مملکت کو اپنے صوابدیدی اختیارات کے درست استعمال میں ناکام ٹھہرایابلکہ یہ بھی کہا ہے کہ اس معاملے میں جتنے بڑے پیمانے پر قانون سے انحراف کیا گیا اسے بدنیتی تصور کیاجاسکتا ہے‘ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس فیصلے کے مضمرات بہت گہرے اور دور رس ہوں گے۔ ملک کی عدالتی تاریخ کا یہ انتہائی اہم فیصلہ جسٹس عطا عمر بندیال نے تحریر کیاہے جبکہ جسٹس فیصل عرب اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے فیصلے میں اپنے الگ نوٹ بھی شامل کیے ہیں۔224 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ججوں کے خلاف ریفرنس خفیہ رکھنے کی قانون میں کوئی شق نہیں،جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف تفتیش کی منظوری وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے دی جس کا انہیں آئینی و قانونی اختیار نہیں تھا۔ جسٹس فیصل عرب نے اپنے نوٹ میں لکھا ہے کہ ریفرنس لندن جائیدادوں پر بنا، ضروری تھا فائز عیسیٰ خود پر لگے داغ دھوئیں۔جسٹس یحییٰ آفریدی نے اضافی نوٹ میں تحریر کیا ہے کہ ٹیکس ریٹرن افشا کرنا جرم ہے اور اس پر شہزاد اکبر و دیگر کی خلاف کارروائی کی جائے۔ جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے جس دس رکنی فل بنچ نے ملک کی عدالتی تاریخ کے اس نہایت اہم مقدمے کی سماعت کرکے رواں سال جون کے تیسرے ہفتے میں اپنے مختصر فیصلے میں صدارتی ریفرنس کو متفقہ طور پر غلط قرار دیا تھا، اس کے دیگر ارکان میں جسٹس مقبول باقر، جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس فیصل عرب، جسٹس مظہر عالم میاں خیل، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحی ٰ آفریدی اور جسٹس قاضی محمدامین احمد شامل تھے۔اس مختصر فیصلے کے چار ماہ بعداعلان کردہ تفصیلی فیصلے کا آغازقرآن پاک کی سورۃ النسا کی آیات سے کرتے ہوئے جسٹس عمر عطا بندیال نے لکھا ہے کہ آزاد اور غیر جانبدار عدلیہ کسی بھی مہذب جمہوری معاشرے کی اقدار میں شامل ہوتی ہے،جسٹس فیصل عرب نے اپنے 23صفحات پر مشتمل نوٹ میں قرار دیاہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا وکلا ء برادری میں انتہائی احترام ہے، جب ان کے ما لی معاملات پر سوال اٹھا تو لازمی تھا کہ وہ اپنے اوپر لگے داغ دھوئیں۔ قانون کی نظر میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف صدارتی ریفرنس قابل سماعت نہیں ہے جبکہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے 24صفحات پر مشتمل نوٹ میں قرار دیاہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس آئین و قانون کی خلاف ورزی تھی، ریفرنس داخل کرنے کا سارا عمل آئین و قانون کے منافی تھا،جبکہ صدرمملکت آئین کے مطابق صوابدیدی اختیارات کے استعمال میں ناکام رہے ہیں۔معاملے کے تمام پہلوؤں کے مفصل جائزے کے بعد فیصلے میں یہ حتمی نتیجہ اخذکیا گیا ہے کہ ریفرنس کی تیاری اور تشکیل میں کی جانے والی غلطیوں کو محض غیر قانوی قرار نہیں دیا جاسکتا ، اس میں آئین کے آرٹیکل 209(5)کے تقاضوں کا جان بوجھ کرخیال نہیں رکھا گیا ہے، اگرچہ ریفرنس کی تیاری اور تشکیل حقیقت میں بدنیتی پر مبنی نہیں لیکن ریفرنس کی تیاری میں کیے جانے والے غیر قانونی اقدامات اس شدت کے ہیں کہ اسے قانون کی نظر میں بدنیتی پر مبنی قرار دیا جاسکتا ہے۔ان ہی وجوہات کی بناء پر اس ریفرنس کو ختم کیا جاتا ہے۔ اس واضح اور دوٹوک فیصلے کے بعد، جن افراد کو اس میں اپنے اختیارات کے غلط استعمال اور آئین و قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب ٹھہرایا گیا ہے، ان کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ اپنے خلاف کسی ادارہ جاتی کارروائی کا انتظار کیے بغیر اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے وہ اقدامات کریں جو اس فیصلے کا منطقی تقاضا ہیں۔

تازہ ترین