• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی سیاسی پیش قدمی جاری ہے اور پاکستان تحریک انصاف کی قیادت اور حکومت اِس پیش قدمی کو روکنے کیلئے خود سیاسی طور پر آگے آنے کی بجائے اداروں کو سیاسی قوتوں سے ٹکرانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ پی ٹی آئی کی پوری قیادت کا ایک ہی بیانیہ ہے کہ اپوزیشن کے لوگ بھارت اور اسرائیل کے ایجنٹ ہیں اور اُن کے کہنے پر اداروں کو بدنام کر رہے ہیں۔ اِس بیانیے کے بہت ہی خطرناک نتائج برآمدہو سکتے ہیں۔

یہ ٹھیک ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اپوزیشن کے کسی سیاسی اتحاد کا بیانیہ ایسا ہے، جسے بعض حلقے کھلم کھلا اینٹی اسٹیبلشمنٹ قرار دیتے ہیں۔ گوجرانوالہ اور کراچی کے جلسوں میں پی ڈی ایم کے تمام رہنماؤں کی تقاریر کا بیانیہ کم و بیش ایک جیسا ہی رہا ہے۔ اپوزیشن رہنمائوں کا کہنا ہے کہ وہ اداروں کے مخالف نہیں ہیں، وہ صرف اُن لوگوں کے مخالف ہیں جو آئین پامال کرتے ہیں، سیاست اور انتخابی عمل میں مداخلت کرتے ہیں اور عوام کے مینڈیٹ کو بدل دیتے ہیں۔ یہی بات وزیراعظم عمران خان بھی کئی بار کہہ چکے ہیں۔ بطور اپوزیشن لیڈر عمران خان کا تو بیانیہ ہی یہی تھا۔ اِس بیانیے پر اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتوں اور اُن کے قائدین کو غدار یا بھارتی اور اسرائیلی ایجنٹ قرار دینا میرے خیال میں انتہائی نامناسب اور قابلِ مذمت عمل ہے۔ اداروں کو اپوزیشن کے خلاف اُکسانا اور اُنہیں سیاسی قوتوں سے ٹکرانے کی ترغیب دینا کوئی سیاسی اور ذمہ دارانہ رویہ نہیں ہے۔ وزیراعظم کی طرف سے بار بار یہ کہنا کہ فوج اور حکومت ایک پیج پر ہیں، فوج کی پیشہ ورانہ پوزیشن کو متاثر کر رہا ہے۔ وزیراعظم نے اپنے انٹرویو میں یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے اپوزیشن رہنماؤں سے جو ملاقاتیں کی تھیں، وہ اُن کے علم میں تھیں اور یہ ملاقاتیں ازخود ایک غلطی تھیں کیونکہ بقول وزیراعظم اِن ملاقاتوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اپوزیشن والے این آر او مانگ رہے تھے۔

میرے خیال میں تحریک انصاف کی قیادت کو اپنے بیانیے اور رویے پر نظرثانی کرنی چاہئے اور اداروں کو سیاسی قوتوں سے نہیں ٹکرانا چاہئے۔ اپوزیشن والے جو باتیں کر رہے ہیں، وہی باتیں با الفاظ دیگر وزیراعظم اور اُن کے ترجمان بھی کر رہے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان کو اُس صورتحال سے نکالا جائے، جس میں سیاست اور سیاسی عمل میں عوام کا فیصلہ کن کردار ہو۔ پی ڈی ایم کی تحریک کئی حوالوں سے پاکستان کے عوام کی سیاسی اور جمہوری جدوجہد کا اگلا مرحلہ ہے۔ پی ٹی آئی کی قیادت اِس کا ادراک کرے۔ حکومت مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ عوام میں پی ٹی آئی قیادت کا یہ بیانیہ غیرموثر ہو چکا ہے کہ موجودہ تباہ حالی کی ذمہ دار سابقہ حکومتیں ہیں۔ ویسے بھی یہ ایک غیرمنطقی بات ہے۔ جب عام انتخابات میں پی ٹی آئی کی قیادت یہ کہہ رہی تھی کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں نے ملک کو تباہ کر دیا ہے اور اب ملک کو اِس تباہی سے نکالنے کے لئے اُسے ووٹ دیا جائے تو اُس کا مطلب یہ تھا کہ وہ حالات کا مکمل ادراک رکھتی ہے اور تباہی سے نکالنے کی ذمہ داری قبول کرتی ہے۔ آج ڈھائی سال بعد بھی وہ انتخابات والا بیانیہ اختیار کر رہی ہے تو لوگ یہ بات سمجھ گئے ہیں کہ پی ٹی آئی نہ صرف ملک کو سنبھالنے کی صلاحیت سے محروم ہے بلکہ اُسے عوام کونئے کل کی اُمید نہیں دینی چاہئے تھی۔

اب صرف پی ٹی آئی کے پاس یہ بیانیہ رہ گیا ہے کہ اپوزیشن کے سیاست دان کرپٹ ہیں اور وہ اپنی کرپشن کو بچانے کے لئے احتجاج کر رہے ہیں۔ یہ بیانیہ افریقا، ایشیا اور لاطینی امریکہ سمیت پوری تیسری دنیا میں غیرموثر ہو چکا ہے۔ تیسری دنیا کے اکثر ملکوں میں احتساب کا کوئی مضبوط نظام نہیں بن سکا ہے اور وہاں کرپشن ہی ایسا نظام ہے، جو ملکی اور عالمی اسٹیبلشمنٹ کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ کرپشن صرف سیاست دانوں تک محدود نہیں۔ پی ٹی آئی کا یہ بیانیہ اب سیاسی تحریک کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ بہتر یہی ہے کہ اداروں کو سیاسی قوتوں سے تصادم میں لے جانے والا بیانیہ ترک کر دیا جائے اور سیاسی تحریک کا مقابلہ آئینی اور سیاسی طریقے سے کیا جائے۔ حکومت اپوزیشن سے مذاکرات کرے اور مذاکرات یہ امر تسلیم کرتے ہوئے کرے کہ عوام میں مہنگائی اور بےروزگاری کی وجہ سے سیاسی بےچینی ہے۔ جو بھی حل نکالا جائے، وہ آئین کے دائرے میں ہو۔ اگر ممکن ہو تو عدالتوں سے بھی رجوع کیا جائے اور سیاسی عمل کو جاری رکھنے کے لئے مخلوط یا وسیع تر قومی حکومت کے آپشن پر بھی غور کیا جائے۔ نہ صرف اب غیرسیاسی قوتوں کو مداخلت نہ کرنے دی جائے بلکہ آئندہ بھی ایسے حالات پیدا نہ کئے جائیں۔ اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کو بھی چاہئے کہ وہ غیرسیاسی قوتوں اور اداروں کی حمایت حاصل کرنے سے گریز کریں۔ پاکستان میں اِس مرحلے پر سیاسی اور جمہوری عمل پٹری سے اُترا تو علاقائی اور بین الاقوامی حالات پاکستان کے لئے انتہائی ناسازگار ہوں گے۔ کوئی بھی سیاسی تصادم میں اداروں کو نہ گھسیٹے۔ یہ عمل سیاسی قوتوں اور ملک کے ساتھ ساتھ اداروں کے لئے بھی خطرناک ہے۔

تازہ ترین