• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان سمیت دُنیا بَھر میں خواتین میں ہونے والے کینسرز میں بریسٹ کینسر سرِفہرست ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں بریسٹ کینسر کے سالانہ 90ہزار کیسز رپورٹ ہوتے ہیں،جب کہ ان میں سے40ہزار خواتین لقمۂ اجل بن جاتی ہیں، لیکن ہلاکتوں کی یہ تعداد اصل سے کہیں کم ہے کہ زیادہ تر کیسز رجسٹر ہی نہیں ہوتے۔

دُنیا بَھر میں بریسٹ کینسر کے 50فی صد کیسز ابتدائی مرحلے ہی میں تشخیص ہوجاتے ہیں، جب کہ ہمارے یہاں دس سال قبل یہ شرح2.3فی صد تھی اور اب بھی10فی صد سے کم ہی ہے کہ70فی صد خواتین مرض کے تیسرے یا آخری مرحلے میں معالج سے رجوع کرتی ہیں،جب مرض خاصا پیچیدہ ہوچُکا ہوتا ہے۔یوں تو بریسٹ کینسر لاحق ہونے کا خطرہ عُمر کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہے، لیکن اب چند برسوں سے 18سے20سال کی عُمر میں بھی یہ مرض تشخیص ہورہا ہے، جو ماہرین کے لیے باعثِ تشویش ہےکہ کم عُمری میں بریسٹ کینسر لاحق ہونے سے موت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

واضح رہے، ہمارےیہاں پر8خواتین میں سے ایک میں بریسٹ کینسر کا رسک موجود ہے۔دراصل ہمارے یہاں کم علمی اور عدم شعور کا یہ عالم ہے کہ خواتین اگر بریسٹ میں معمول سے ہٹ کر کسی بھی قسم کی کوئی تبدیلی یا علامت محسوس کریں، تو اپنی فیملی یا معالج سے مشورہ کرنے میں سخت ہچکچاتی ہیں اور یہی امر نہایت خطرناک اور نقصان دہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے کچھ عرصے سے اس ضمن میں مسلسل بیداریٔ شعور کی کوششیں کی جارہی ہیں ۔خواتین کو خودمعائنے کی اہمیت اور جلد تشخیص و علاج کی افادیت سے آگاہ کیا جارہا ہے۔

بریسٹ کینسر کی عام علامات میں گلٹی ، سوجن، جِلد کی رنگت بدل جانا، بغل یا کالربون کے اطراف میں درد ،نِپل میں زخم،خون یا رطوبت کا اخراج وغیرہ شامل ہیں۔نیز ، ایک علامت بریسٹ کی بیماری"Paget Syndrome" بھی ہے۔ یہ سینڈروم ایگزیما کی طرح بریسٹ کی جِلد کی تبدیلیوں کے طور پر ظاہر ہوتا ہے۔ابتدا میں نِپل کی جِلد سُرخی مائل ہوجاتی ہے،پھرجوں جوں بیماری بڑھتی ہے، علامات بھی شدّت اختیار کرتی چلی جاتی ہیں۔ مثلاً شدید خارش، حسّاسیت میں اضافہ، جلن اور درد وغیرہ ۔بعض اوقات نِپل سے مواد بھی خارج ہوسکتا ہے۔

بریسٹ کینسر لاحق ہونے کے متعدّد عوامل میں تاب کاری اور کئی اقسام کے کیمیکلز بھی شامل ہیں۔1980ء میں یہ تصوّر عام تھا کہ اسقاطِ حمل بریسٹ کینسر کے امکانات بڑھا دیتا ہے، لیکن اس حوالے سے جب تحقیقات کی گئیں تو یہ تصوّر بے بنیاد ثابت ہوا۔ البتہ مانع حمل ادویہ اس کی وجہ ضرور بن سکتی ہیں۔اِسی طرح ایک تحقیق کے مطابق طویل عرصے تک تمباکو نوشی کے نتیجے میں بریسٹ کینسر کے خطرات 50فی صد بڑھ جاتے ہیں۔

علاوہ ازیں، بعض جینیاتی عوامل جیسے بریسٹ کے ٹشوز کی کثافت اور ہارمونز کی مقدار کا توزان بگڑجانا بھی مرض لاحق ہونے کا سبب بن سکتے ہیں۔ واضح رہے اگربریسٹ کے ٹھوس ٹشو زکی حامل خواتین اس عارضے کا شکار ہوجائیں تو ان میں تشخیص مشکل امر بن جاتی ہے۔کیوں کہ ٹھوس ٹشوز کی وجہ سے میموگرام میں ٹیومر کم دکھائی دیتا ہے۔ مزید برآں، جن خواتین میں قدرتی طور پر ایسٹروجن اور پروجیسٹرون ہارمونز زیادہ تعداد میں پائے جائیں، اُن میں بھی مرض سے متاثر ہونے کے امکانات زیادہ پائے جاتے ہیں، تو بعض اوقات ذیابطیس کا مرض بھی رسک بن سکتا ہے۔

پاکستان کے متعدّد طبّی مراکز میں بریسٹ کینسر کی تشخیص کے لیے اسکریننگ اور میموگرافی کی مفت سہولت دستیاب ہے، جو صرف40سال سے زائد عُمر کی خواتین کے لیے ہے،لہٰذا وہ خواتین جن کی عُمر 40سال یااس سے زائد ہو، وہ سال میں ایک بار لازماً اسکریننگ کروائیں۔اس کے علاوہ ان مراکز میں بائیوآپسی بھی کی جاتی ہے۔نوجوان لڑکیوں میں مرض کی تشخیص کے لیے الٹرا ساؤنڈ یا پھر ایم آر آئی تجویز کیا جاتا ہے۔اگر نتائج تسلی بخش نہ ہوں،تو پھر مائکرواسکوپک تجزیےکے لیے گلٹی میں موجود ٹشو کا نمونہ لیاجاتا ہے، تاکہ حتمی تشخیص ہوسکے۔

بریسٹ کینسر کی حتمی تشخیص کے بعد یہ جانچنے کے لیے مزید ٹیسٹ کروائے جاتے ہیں کہ سرطان کس حد تک پھیل چُکا ہے اور علاج کا کون سا طریقۂ کار مؤثر رہے گا۔بریسٹ کینسر کی عام طور پر ہسٹولوجیکل درجہ بندی بھی کی جاتی ہے۔ زیادہ تر کیسز میں بریسٹ کینسر لوبز میں ہوتا ہے،جسے Ductal کہا جاتا ہے اور جو کینسر مقامی طور پر محدود ہو، وہ Carcinoma in Situکہلاتا ہے۔یاد رکھیں،بریسٹ کینسر کی بروقت تشخیص سے جان بچنے کا امکان90فی صد تک بڑھ جاتا ہے۔

سرطان کے مراحل کو TNM ( ٹیومر، نوڈ اور میٹاسٹیسز) سے ظاہر کیا جاتا ہے۔یعنی سب سے پہلے ٹیومرکے حجم کا تعین کیا جاتا ہے۔پھر یہ دیکھا جاتا ہے کہ رسولی لمف نوڈکی جانب بڑھنا شروع ہوئی یا نہیں۔اورسوم یہ کہ سرطان جسم میں کس حد تک پھیل چُکا ہے۔ یوں سمجھیں، گلٹی کا زائدحجم، نوڈز تک پھیلاؤ اور میٹاسٹیسز خطرے کی گھنٹی ہے۔بریسٹ کینسر پنپنے کے چار مراحل ہیں۔ پہلے مرحلے میں گلٹی ظاہر ہوتی ہے، جس کا حجم چھوٹا ہوتا ہےاوراس میں درد محسوس ہوتا ہے۔اس مرحلے میں کینسر بافتوں کو آزادانہ طور پر نقصان پہنچا رہا ہوجاتا ہے۔

دوسرے مرحلے میںگلٹی کا حجم بڑھنا شروع ہوتا ہے اور اس کی جڑیں بھی پھیل کر لِمف نوڈز میں داخل ہو جاتی ہیں۔ تیسرے مرحلے میں سرطان بریسٹ کی بیرونی جِلد تک پھیل جاتا ہے۔اگر نِپل سے مواد خارج ہو تو یہ بھی ممکنہ طور پر کینسر کی علامت ہو سکتی ہے،جس کی فوری تشخیص ناگزیر ہے۔ چوتھے اور آخری مرحلے میں کینسر لمف نوڈز سے نکل کر جسم کے دیگر حصّوں خاص طور پر ہڈیوں، پھیپھڑوں، جگر اور دماغ تک پھیل جاتا ہے۔یہ وہ مرحلہ ہے،جب معالج کے لیے بھی علاج ایک چیلنج بن جاتا ہے کہ ایسے زیادہ تر کیسز میں مریضہ کی موت ہی واقع ہوجاتی ہے۔

بریسٹ کینسرکے علاج کے کئی طریقے مستعمل ہیں، ان میں سرجری، ریڈی ایشن، کیمو تھراپی اور ہارمونل تھراپی شامل ہیں۔سرجری کی بھی کئی اقسام ہیں، جو مرض کی نوعیت کے مطابق تجویز کی جاتی ہیں۔ ویسے علاج کے یہ تمام طریقے منہگے ہیں اور ہر کوئی ان اخراجات کا متحمّل نہیں ہوسکتا، لہٰذا اگرخواتین اپنےروزمرّہ کے معمولات میں تھوڑی سی تبدیلی لے آئیں، تو اس مُوذی بیماری سے بہت حد تک بچائو ممکن ہے۔مثلاً ورزش کو معمول کا حصّہ بنالیا جائے، صحت اور صفائی کا خاص خیال رکھا جائے۔

مائیں مقرّرہ مدّت تک بچّے کو دودھ پلائیں، مانع حمل ادویہ، ہارمون ری پلیسمینٹ تھراپی کے اَزخود اور غیر ضروری استعمال سے اجتناب برتیں، غیر ضروری ایکس رے نہ کروائیں، نیز، تاب کاری والی جگہوں مثلاً کیمیکل انڈسٹریز وغیرہ سے دُور رہیں۔وزن بڑھنے نہ دیں، تازہ پھل اور سبزیاں زیادہ سے زیادہ استعمال کریں کہ ان میں ایسے اجزاء پائے جاتے ہیں، جو کینسر سے بچائو میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنا معائنہ خود کرنے کو معمول بنالیں۔ ہفتے میں ایک بار لازماً اپنا تفصیلی معائنہ کریں اور کسی بھی غیر معمولی تبدیلی کی صُورت میں فوری اہلِ خانہ اور معالج کو اعتماد میں لیں۔

ہمارے یہاں بریسٹ کینسر سے متعلق بعض مفروضات بھی عام ہیں۔ مثلاً یہ چھوت کا مرض ہے اور اس بنا پر نہ تو مریضہ کا تیار کردہ کھانا کھایا جاتا ہے، نہ اس کی زیرِ استعمال چیزیں،خود استعمال کی جاتی ہیں، حتیٰ کہ ساتھ بٹھانے سے بھی گریز کیا جاتا ہے،جو انتہائی غیر اخلاقی عمل ہے اور اس کی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔

اس کے علاوہ بعض افراد کا ماننا ہے کہ پرفیومز، ڈیوڈرنٹس، پسینہ خشک کرنے والے اسپریز، انڈرگارمنٹس، کیفین، میموگرام، پلاسٹک کے بنے ہوئے کھانے کے برتن، مائیکرویو اوون اور موبائل فونز بھی بریسٹ کینسر کا سبب بنتے ہیں، تو یہ قطعاً درست نہیں۔ البتہ ان چیزوں کے استعمال کے بعض منفی نتائج سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

تازہ ترین