سائنس دان نت نئی ایجادات کے ذریعے مہلک بیماریوں کے علاج کے لیے مختلف طر یقے متعارف کروا چکے ہیں ۔لیکن بیماریوں کےعلاج کے روایتی طر یقوں کو ابھی متروک نہیں کیا گیا ۔اس ضمن میں ماہرین نے معدے کی بیماری کے علاج کے لیےاچھے اور موثر بیکٹیریا کو تلاش کیا گیا ہے جسے اگر نظام انہضام میں پہنچا دیا جائے تو کئی سنگین بیماریوں کا علاج ممکن ہو جائے گا ۔اس سلسلے میں کئی دوا ساز کمپنیوں کے درمیان ایسے بیکٹیریا کی مدد سے دوائوں کی تیاری شروع کردی ہے۔
انسانی جسم میں جرثوں، مدافعتی خلیوں، انتڑیوں کے ٹشوز اور ان میں موجود خلیوں کی لاتعداد آبادی ہے اور وہ آپس میں کئی کیمیکل اور فزیکل رابطے کرتے ہیں اور لاتعداد سنگلز جاری کرتے ہیں جنہیں سمجھنا تاحال انسانی ذہن سے باہر ہے۔
اس آبادی کا ایکو سسٹم ہے جو بہت مشکل ہے جسے بالعموم مائیکرو بائیومی (Microbiome) کہا جاتا ہے اور یہ معدے کے کئی مسائل سے نہ صرف جڑا ہوتا ہے بلکہ یہ اس کے علاوہ کئی عصابی اور مدافعاتی امراض کا بھی سبب بن سکتا ہے۔ ایسا ہی ایک مسئلہ کلوسٹریڈیام ڈیفیسیل (Clostridium difficile) نامی بیکٹیریا کی عام سی نوع سے جنم لیتا ہے۔ بیکٹیریا کی یہ نوع انتڑیوں کو اپنا نشانہ بناتی ہے، اس بیماری کا سادہ علاج ’’اچھے‘‘ بیکٹیریا کو نظام انہضام میں داخل کر کے کیا جا سکتا ہے۔
تاہم اس عمل کا طریقہ کار مشکل ہے۔ اگلے مرحلے میں Microbiome یعنی جینز اور ان میں موجود جرثوموں کی اگلی جنریشن سے تیار کردہ ادویات مریض کو دی جاتی ہیں۔Seres Therapeutics کے چیف ایگز یکٹیو روجر پومر اینٹا ز (Roger Pomerantz) کے مطابق انتڑیوں ،پرانی سوزش اور بڑی آنت میں ہونے والے ورم کے علاج کے لیے تیار کردہ ادویات کے کلینکل تجربات کیے جا رہے ہیں ۔