پاکستان موسم کے لحاظ سے دنیا کے گرم ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے اس کا ہمیں اس لئے علم ہے کہ ہمارے پاس درجہ حرارت ناپنے کے آلات موجود ہیں جس کے ذریعے کرہ ارض کے انچ انچ کا حساب معلوم کیا جاسکتا ہے۔ لیکن پاکستان سیاسی لحاظ سے بھی دنیا کا گرم ترین ملک ہے۔ جسے ناپنے کے لئے ہمارے پاس کوئی مشینی آلات نہیں ہیں تاہم گرم دماغی تو دیکھی اور سمجھی جاسکتی ہے۔ گرم دماغی گرمی جذبات سے پیدا ہوتی ہے۔ جذبات ٹھنڈے ہوں تو عقل مست و رقصاں رہتی ہے اور معاملات عقل کے کنٹرول میں ہوتے ہیں۔ جذبات گرم ہوں تو عقل ہتھیار ڈال دیتی ہے بلکہ عقل مر جاتی ہے۔ مری ہوئی چیزوں کو زندہ کرنا ناممکنات میں نہیں۔ ہم یورپ میں رہتے ہیں جہاں ٹھنڈا موسم گرمی جذبات کو عقل پر حاوی نہیں ہونے دیتا معاملات بگڑتے ہیں لیکن عقل اور سمجھ ان کا حل تلاش کرلیتی ہے۔ کوئی پہلے سے طے شدہ قوانین اور قواعد لاگو نہیں کئے جاتے لیکن جنرل پرویزمشرف کی گرمی جذبات کو یورپ کی ٹھنڈی ہوائیں معتدل نہ کرسکیں اور وہ جذبات پر قابو نہ رکھتے ہوئے قومی اسمبلی کا رکن بننے دوڑ پڑے کب کسی کی عقل جواب دے جائے کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ عام لطیفہ مشہور ہے کہ پروفیسر پروفیسر ہی رہتا ہے خواں وہ اگلی عمر میں پہنچ کر سمجھداری کی باتیں ہی کیوں نہ کرنے لگ جائے۔ لیکن پروفیسر کے کتابوں اور فلسفے میں کھوئے رہنے کی وجہ سے کسی نے یہ لطیفہ چھیڑ دیا ہوگا۔ البتہ کسی فوجی کے بارے میں یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ فوجی فوجی ہی رہتا ہے چاہے وہ کوئی سیاسی پارٹی ہی کیوں نہ بنالے۔ اب جنرل پرویز مشرف کو دیکھ کر یہ بات سمجھ میں آگئی ہے کہ فوجی کا مطلب ہے بہادر اور شیر کی طرح نڈر۔ اتنا بہادر کہ شوق جذبات میں موت کے منہ میں کود جائے اور یہی کہتا رہے کہ میں کسی سے ڈرتا ورتا نہیں ہوں۔ جنرل پرویزمشرف اس فرق کو بھول گئے کہ چھ لاکھ کی فوج کے بل بوتے پر تختہ الٹ کر اقتدار قابو کرنے اور عوام کے دل جیت کے حکومت لینے میں کتنا فرق ہے۔ ذرا ساانٹرنیٹ سے نکل کر حقیقی عوام میں آئے ہوتے تو آج دوبارہ Safe Exitنہ ڈھونڈ رہے ہوتے لیکن اردگرد خوشامدیوں کا ٹولہ انسان کی عقل، سماعت اور بینائی سب مفلوج کردیتا ہے۔ ادھر عمران خان اور نواز شریف کی دندناتی مہم چل رہی ہے اور وہ ایسی ایسی جگہوں پر جاکر کسی بلٹ پروف شیلڈ کے بغیر جلسے کر رہے ہیں جہاں اے این پی، پی پی پی اور ایم کیو ایم کو جلسے کرنے سے طالبان نے منع کردیا ہے اس پر ان پارٹیوں کی دانش کو داد دینی چاہئے کہ وہ تحمل کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑ رہے اور جنرل پرویز مشرف والی بہادری دکھانے سے گریز کر رہے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ کچھ پارٹیاں تو دہشت گردوں کی Good Booksمیں ہیں اور وہ پارٹیاں بھی دہشت گردی کے خلاف اپنے جلسوں اور تقریروں میں کوئی خاص مذمتی زبان استعمال نہیں کرتیں۔ یہ کیسا آزاد الیکشن ہے کہ رنگ میں ایک پہلوان کو باندھ کر دوسرا اپنے داوٴ پیچ اور بہادری کے جوہر دکھا رہا ہے۔ اس یکطرفہ ٹریفک سے ملک میں الیکشن کی گہما گہمی بھی نہ ہونے کے برابر ہے بلکہ یوں لگتا ہے کہ سیاسی ماحول اور میدانوں میں کوئی انتخابی گہما گہمی نظر نہیں آتی۔ ساری مہمIndoorچلائی جارہی ہے۔ کارنر میٹنگز ہوتی ہیں یا پھر میڈیا کے ذریعے لوگ امیدواروں کو پرکھتے ہیں۔ ان کے گزشتہ انتخابی مہم کے دوران کئے گئے وعدوں کی روشنی میں کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں۔ پاکستان میں منظر تو اسی طرح کا بن رہا ہے لیکن کسی سیاسی شعور کی پختگی کے نتیجے میں نہیں بلکہ بموں کے حملوں کے ڈر کے نتیجے میں ایسا نظر آرہا ہے۔ لگتا ہے ہلڑ بازی کو ہم سیاسی بچپن کا حصہ سمجھنے لگے ہیں اسی طرح کا کام دو دہائیاں قبل بھی پاکستان میں ہتھوڑے گروپ نے کیا تھا۔ جس کے نتیجے میں لوگوں نے گرمیوں میں اپنے صحنوں میں چارپائیاں بچھاکر سونا چھوڑ دیا تھا۔ لگتا ہے دہشت گردوں نے ہمیں ڈرا دھمکا کر ماڈرن کردیا ہے۔ وگر نہ ہم خود تو کسی جدیدیت کے ہتھے چڑھنے والے نہیں ہیں۔ ہم مضبوط اور موٹی کھال کے لوگ ہیں۔ ہاتھی کی طرح مہاوت کو ہمیں سوئی والی چھڑی سے ہانکنا پڑتا ہے۔ اشاروں کنائیوں کو ہم کہاں کچھ سمجھتے ہیں۔ اب علامہ طاہر القادری بھی چیخ چیخ کر لوگوں کو کچھ سمجھا رہے ہیں۔ وہ بھی انتخابی طریقہ کار سے مطمئن نہیں ہیں۔ لیکن ان کی بے چینی دہشت گردی نہیں ہے بلکہ انہیں اعتراض یہ ہے کہ وہ اچھی خاصی یورپ اور کینیڈا کی مصروف اور مربیوں والی زندگی چھوڑ کر پاکستان کو صادقین اور امین لوگوں کے سپرد کرنے آئے تھے۔ لیکن وہی پرانے لوگ ہی میدان انتخاب کے امیدواران بن کر سامنے آگئے ہیں۔ حالانکہ الیکشن کمیشن نے تشہیرکرکے صادق اور امین ڈھونڈ لئے ہیں۔ اب عوام پر منحصر ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کے منظور شدہ اعلیٰ نسل اور خاندانی قسم کے صادق اور امین چنتے ہیں یا سادہ صادق اور امین پر اکتفا کرتے ہیں۔ لیکن علامہ طاہر القادری نے ان منظور شدہ صادقین اور امینوں کو ووٹ دینا جرم قرار دے دیا ہے۔ اب اگر الیکشن ہوں گے تو ووٹ تو پڑے گا ہی۔ ووٹ بے چارے کو کیا پتہ کہ وہ حلال ہے یا حرام۔ بالکل ایسے ہی جیسے سڑک پر لکھا ہوکہ یہاں گاڑی پارک کرنا جرم ہے یا لکھا ہو کہ یہاں 40میل فی گھنٹہ سے زیادہ گاڑی چلانا حرام ہے۔ البتہ جب پارلیمنٹ منتخب ہوکر آئے گی تو پتہ چلے گا کہ یہ پارلیمنٹ کس کی ہے۔ حلال اور حرام سے ہٹ کر جیسی انتخابی مہم چل رہی ہے اس میں کوئی بھی بگڑے نظام کو بنیادی طور پر ٹھیک کرنے کی بات نہیں کر رہا۔ اب تو بجلی کا بحران ٹھیک کرنے کے دعویداروں نے بھی اس بحران سے نکلنے کی مدت 3ماہ سے بڑھا کر تین سال کردی ہے۔ جس سے لگتا ہے کہ یہ بحران ابھی اگلے چند سال تو قابو میں آنے والا نہیں ہے۔ ہمارے عوام بھی بڑے صبر والے ہیں خود کو سمجھا بجھا لیں گے کہ جہاں اتنی زندگی بغیر بجلی کے کٹ گئی ہے وہاں تھوڑی باقی بھی کٹ جائے گی۔ اس الیکشن میں نہیں تو چلو اگلے الیکشن تک بجلی آہی جائے گی۔ انٹرنیٹ پر بلب کا انتخابی نشان لئے عوامی ورکرز پارٹی کے جنرل سیکرٹری فاروق طارق بھی انقلابی تبدیلیوں کا نعرہ لگاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ میں تو کہتا ہوں وہ شکر کریں کہ اتنے مقبول نہیں ہیں کہ انقلاب لاسکیں وگر نہ طالبان سے انہیں بھی اپنی انتخابی مہم چلانے کا اجازت نامہ نہیں ملنا تھا۔ اب تو جس طرح سے دہشت گردی کا راج مضبوط ہو رہا ہے اس سے ہوسکتا ہے کہ اگلے انتخابات تک الیکشن کمیشن کو کسی بھی امیدوار کے کاغذات نامزدگی اس وقت تک قبول نہیں ہوں گے جب تک اس کے فارم پر اپنے علاقے کے طالبان کے ناظم کے دستخط نہ ہوں۔ ابھی ہم نے بہت کچھ دیکھنا ہے۔ بس دعا کرتے رہا کیجئے۔