• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حال ہی میں دبئی میں ایک کانفرنس میں شرکت کیلئے گیا ہوا تھا جس میں عالمی معیشت کو درپیش چیلنجز پر دنیا کے ممتاز معیشت دانوں نے اپنے پیپر پڑھے۔ مجھے بھی اس کانفرنس میں اسپیکر کی حیثیت سے مدعو کیا گیا تھا۔میں نے اپنے خطے میں معاشی چیلنجز پر بات کی۔ میں چاہوں گا کہ آج کے کالم میں گلوبل معاشی پس منظر میں اپنے اور دیگر خطوں کے معاشی حالات قارئین سے شیئر کروں۔
عالمی معیشت کو اس وقت بے شمار چیلنجز کا سامنا ہے، دنیا میں کساد بازاری پائی جاتی ہے۔ یورپ، امریکہ کے کئی ممالک اپنی ایکسپورٹ اور معاشی گروتھ کو مستحکم کرنے کیلئے اپنی کرنسیاں کمزور کررہے ہیں۔ یورپ میں دہشت گردوں کے حملے اور مڈل ایسٹ میں مہاجرین کے انخلاء نے بھی عالمی معیشت پر منفی اثرات مرتب کئے ہیں۔ چین جو عالمی معیشت پر گہرے اثرات ڈالتا ہے، اپنی کرنسی کی قدر میں پہلے ہی کافی حد تک کمی کرچکا ہے جبکہ امریکہ ڈالر کو مضبوط دیکھنا چاہتا ہے اور آج کل دنیا کی دیگر کرنسیوں کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں اضافہ ہورہا ہے۔ مڈل ایسٹ اور خلیجی ممالک کی تیل کی قیمتوں میں ریکارڈ کمی کی وجہ سے ان ممالک کی معیشت لڑکھڑانے لگی ہے اور بجٹ خسارے میں اضافے سے ان ممالک کی معیشت پر مسلسل دبائو بڑھ رہا ہے۔ آئل کمپنیوں نے اپنے ورکرز کی کٹوتی شروع کردی ہے جس سے بیروزگاری میں اضافہ ہورہا ہے۔ دبئی میں رئیل اسٹیٹ کی قیمتوں اور رہائشی کرایوں میں 20% تک کمی ہوچکی ہے۔ جی سی سی ممالک آئندہ مالی سال سے یورپ اور دیگر ممالک کی طرح VAT ٹیکس کا نفاذ کرنا چاہتے ہیں جبکہ کویت سمیت کچھ خلیجی ممالک تارکین وطن کی آمدنی پر ٹیکس عائد کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ ان ممالک میں غیر ملکیوں کیلئے پانی اور بجلی کے نرخ بڑھادیئے گئے ہیں، تنخواہوں میں سالانہ اضافہ بند کردیا گیا ہے جبکہ کمپنی کی طرف سے دی گئی سہولتیں بھی آہستہ آہستہ واپس لی جارہی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق صرف متحدہ عرب امارات میں VAT کے نفاذ سے حکومت کو 3 سے 4 ارب ڈالر کی آمدنی متوقع ہے۔ کویت جیسے امیر ملک کو 2015-16ء کے بجٹ میں 27 ارب ڈالر کا خسارہ متوقع ہے جس کو پورا کرنے کیلئے کویت نے VAT ٹیکس کے علاوہ کمپنیوں کے منافع پر 10 فیصد ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور لگتا ہے کہ مستقبل میں ان خلیجی ممالک کی غیر ملکیوں کو ٹیکس فری آمدنی کی کشش ختم ہوجائے گی۔
دنیا کی اس کساد بازاری اور مندی میں ورلڈ بینک نے 2016-17ء کیلئے ایسٹ ایشیاء اور پیسفک ریجن جس میں چین بھی شامل ہے، میں مختلف ممالک کی جی ڈی پی گروتھ کی پیش گوئی کی ہے۔ چین کی 2016-17ء کیلئے گروتھ 6.3% بتائی گئی ہے جو گزشتہ سال 6.9% تھی۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے ADO2016 رپورٹ کے مطابق خطے کے دوسرے اہم ملک انڈیا کی 2016ء میں جی ڈی پی گروتھ 7.4% اور 2017ء میں 7.8%کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ اسی رپورٹ میں میانمار کی سب سے زیادہ گروتھ 8.4%، ویت نام کی 6.7%، فلپائن کی 6.1%، انڈونیشیا کی 5.2%، ملائیشیا کی 4.2% اورتھائی لینڈ کی 3% گروتھ متوقع ہے۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے 2016-17ء کیلئے پاکستان کی گروتھ 4.8% پیش گوئی کی ہے جس کی وجہ ملک میں انرجی کی سپلائی میں بہتری اور سی پیک کے پروجیکٹس ہیں۔ ان اعداد و شمار سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آنے والے وقت میں ہمارے خطے میں تیز گروتھ جبکہ یورپ، امریکہ اور دیگر ممالک میں سست گروتھ متوقع ہے۔
دنیا کی اسٹاک مارکیٹوں میں بھی مندی کا رجحان ہے۔ اس لحاظ سے پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ کی کارکردگی قدرے بہتر ہے۔ پاکستان اسٹاک ایکسچینج 100 انڈیکس آج بھی 33,646ہے اور امید کی جارہی ہے کہ وہ اگست 2015ء کی 36,000کی اپنی بلند ترین حد دوبارہ حاصل کرلے گا جبکہ لوگوں کا خیال تھا کہ پاناما لیکس جس میں پاکستان کے کئی سیاستدانوں، تاجروں اور صنعتکاروں کے بیرون ملک آف شور کمپنیوں کے مالک نکلے ہیں، کی وجہ سے مقامی اسٹاک مارکیٹ پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ پاناما لیکس پر میرے بھائی اشتیاق بیگ اور دیگر کالم نگاروں نے بہت کچھ لکھا ہے لیکن اس موقع پر میں سوئس بینکوں میں 200 ارب ڈالر کے پاکستانی کالے دھن کے بارے میں لکھنا چاہوں گا جو اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ دنیا بھر کے لوگ اپنی غیر قانونی دولت سوئٹزرلینڈ اور دوسرے ٹیکس سے مستثنیٰ ممالک میں رکھتے ہیں جس کی مجموعی مالیت تقریباً 32ٹریلین ڈالر ہے جس میں سے صرف سوئس بینکوں میں 7 ٹریلین ڈالر جمع ہیں۔ سوئس بینکنگ ایسوسی ایشن کی ایک رپورٹ کے مطابق سوئس بینکوں میں بھارت کے 1456 ارب ڈالر، روس کے 470 ڈالر، انگلینڈ کے 390 ڈالر اور پاکستان کے 200 ارب ڈالر کالے دھن کی رقوم جمع ہیں جبکہ دیگر ممالک میں چین، میکسیکو، اورملائیشیا وغیرہ شامل ہیں جنہوں نے کالے دھن کی رقوم سوئس بینکوں میں جمع کرا رکھی ہیں تاہم ان ممالک میں غیر قانونی معیشت فروغ پارہی ہے اور ہر سال اس کالے دھن کی منتقلی میں اضافہ ہورہا ہے۔
ان ممالک کے کارپوریٹ ادارے ٹیکسوں سے بچنے اور کالے دھن کو سفید کرنے کے لئے آف شور کمپنیاں استعمال کرتے ہیں جس کے تحت ان کمپنیوں کے اثاثوں اور اصل مالکان کے نام خفیہ رکھے جاتے ہیں۔ G8 اور G20 ترقی یافتہ ممالک نے ان گمنام آف شور کمپنیوں کو ایک بین الاقوامی مالیاتی مسئلہ قرار دیا ہے اور حال ہی میں پاناما لیکس کی رپورٹ جس میں دنیا کی 143 اہم شخصیات کے نام ہیں، کو میڈیا نے منی لانڈرنگ، ٹیکس چوری اور کالا دھن سفید کرنے کا سب سے بڑا اسکینڈل قرار دیا ہے جس نے دنیا کی معیشت میں ایک ہلچل مچادی ہے اور کئی سربراہان مملکت کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا ہے۔ سوئس قانون کے مطابق سوئس عدالت کی تحقیقات میں اگر جرم قابل سزا ثابت ہو جائے تو ملزم کے اثاثے منجمد کرکے انہیں متعلقہ حکومت کے حوالے کیا جاسکتا ہے۔ امریکہ میں بننے والے نئے قانون کے تحت بینکوں کی یہ ذمہ داری ہوگی کہ وہ آف شور کمپنیوں کے حقیقی مالکان کے بارے میں معلومات حاصل کریں۔ پاکستان اور سوئٹزرلینڈ کے مابین ٹیکس معاہدے پر نظرثانی کی منظوری کے بعد حکومت نے 11 سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کے غیر قانونی طور پر رکھے گئے 200 ارب ڈالر واپس لانے کے لئے سوئٹزرلینڈ حکومت سے رابطہ کیا اور اس سلسلے میں ایک پاکستانی وفد نے ان اکائونٹس کی تفصیل لینے کے لئے اگست 2014ء کو جنیوا کا دورہ بھی کیا تھا لیکن اس کے بعد کوئی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی۔
پاکستان میں جلد ہی وزیراعظم کا اعلان کردہ جوڈیشل کمیشن ان کمپنیوں اور ان میں بھیجے جانے والے فنڈز کی انکوائری کرکے یہ بتائے گا کہ ملک سے کتنا کالا دھن اُن کمپنیوں میں بھیجا گیا۔ آف شور کمپنیوں کے نام پر سوئس بینکوں میں رکھے گئے کالے دھن کی ایک ہی چین ہے کیونکہ 2لاکھ سے زیادہ یہ آف شور کمپنیاں حکمرانوں، سیاستدانوں اور امراء کی اصل شناخت چھپاکر آف شور کمپنیوں کے نام پر ان کے کالے دھن سوئس بینکوں میں رکھتی ہیں۔ میری حکومت سے درخواست ہے کہ وہ اس موقع پر سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں رکھے گئے 200 ارب ڈالر کی غیر قانونی دولت کو بھی پاکستان واپس لانے کیلئے سنجیدہ کوششیں کرے۔ اگر کوئی ہمارے غریب ملک کا امیر ترین حکمراں، بزنس مین یا سیاستدان اپنی سوئٹزرلینڈ یا پاناما میں رکھی گئی غیر قانونی دولت وطن واپس لانا چاہتا ہے تو اُسے نئی ایمنسٹی اسکیم کے تحت اس بات کی اجازت دی جائے کہ غیر قانونی دولت وطن واپس لانے پر اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ مجھے خوشی ہے کہ اس سلسلے میں سابق وزیر اطلاعات محمد علی درانی نے500 ارب ڈالر کی غیر قانونی دولت اور اثاثے پاکستان میں واپس لانے کیلئے عالمی سطح پر مہم چلانے کا اعلان کیا ہے۔میں یقین سے یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ بیرون ملک سے واپس لائی گئی دولت سے پاکستان نہ صرف آئی ایم ایف سمیت تمام غیر ملکی قرضے ادا کرسکتا ہے بلکہ قرضے دینے کے قابل بھی بن سکتا ہے۔
تازہ ترین