• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کووڈ 19 سے زیادہ خطرناک مرض، عدم توجہی کا شکار

عالمی ادارۂ صحت کے زیرِ اہتمام دُنیا بَھر میں ہر سال 12نومبر کو ’’ورلڈ نمونیا ڈے‘‘ منایا جاتا ہے، جس کا مقصد ہر سطح تک مرض سے متعلق آگاہی عام کرنا ہے، تاکہ اس سے ہونے والی اموات کی شرح پر قابو پایا جاسکے۔اِمسال کا تھیم "Stop Pneumonia/Every Breath Counts"ہے۔ واضح رہے کہ دُنیا بَھر میں ہر 39سیکنڈزبعد ایک بچّہ نمونیا سے متاثر ہوتا ہے، جب کہ ہر روز قریباً2200بچّے اس مرض کا شکار ہوکر لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔یونی سیف کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق دُنیا بَھر میں ہر سال 8 لاکھ بچّے صرف نمونیا کے باعث پانچ سال کی عُمر تک پہنچنے سے قبل ہی زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں اور ان میں سے زیادہ تر اموات 2 سال سے کم عُمر بچّوں کی ہوتی ہیں۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کم آمدنی والے مُمالک میں نمونیا کے سالانہ لگ بھگ151ملین کیسز رپورٹ ہوتے ہیں اورزیادہ تر اسپتالوں میں داخل یا ہونے والے اوپی ڈی میں آنے والےمریضوں کی اکثریت بھی نمونیا سے متاثرہ بچّوں ہی پر مشتمل ہوتی ہے۔نیز،ترقّی پذیر مُمالک میں بچّوں کے ہلاکت کا سب سے بڑا سبب بھی یہی مرض ہے۔ 

فی الوقت، دُنیا کے جن پانچ مُمالک میں نمونیا سے ہلاکتوں کی شرح بُلند ہے، ان میں سرِفہرست نائیجیریا ہے، جہاں سالانہ1,62,000بچّے اس کے سبب انتقال کرجاتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر بھارت(1,27,000ہلاکتوں کے ساتھ)،تیسرے پر پاکستان(58,000)،چوتھے پر کانگو(40,000)اور پانچویں پر ایتھوپیا(32,000)ہے۔

افسوس کہ پاکستان اُن مُمالک میں شامل ہے، جہاں آج تک نمونیا اور اس سے ہونے والی ہلاکتوں پر قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہمارے یہاں ہر سال نمونیا کے تقریباً 10ملین کیسز رپورٹ ہوتے ہیں، جن میں5سال سے کم عُمر18 فی صد بچّے لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔حالاں کہ یہ مرض سو فی صد قابلِ علاج ہے اور اس سے بچاؤ بھی ممکن ہے، لیکن پس ماندہ مُمالک میں غربت، مرض سے متعلق معلومات کے فقدان اور وسائل کے غیر مؤثر استعمال جیسے مسائل شرحِ اموات کم کرنے میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔

نمونیا کے عالمی دِن کے موقعے پر’’ سیو دی چلڈرن‘‘کے چیف ایگزیکٹیو Kevin Watkinsنے ایک پیغام جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ’’نمونیا نظر انداز کی جانے والی ایک ایسی عالمی وبا ہے، جو فوری توجّہ کی متقاضی ہے۔ لاکھوں بچّےمحض ویکسین، حفاظتی ٹیکا جات، اینٹی بائیوٹکس اور سادہ آکسیجن دستیاب نہ ہونے کے سبب ہلاک ہورہے ہیں، لیکن نمونیا سے نمٹنے کے لیے عالمی سطح پرصرف3فی صد فنڈخرچ کیا جاتا ہے، جب کہ5 سال سے کم عُمر بچّوں میں اموات کی شرح 15 فی صد ہے۔‘‘اس ضمن میں’’ایوری بریتھ کاؤنٹ‘‘ کی کوآرڈی نیٹرLeith Greensladeکا کہنا ہے کہ ’’کئی دہائیوں سے اس مرض سے نمٹنےکے معاملے میں کوتاہی کی جارہی ہے، جس کا خمیازہ دُنیا بَھرکے معصوم بچّے موت کی صُورت بھگت رہے ہیں۔

یہاں تک کہ پس ماندہ اور ترقّی پذیر مُمالک میں تو یہ عارضہ عارضہ ہول ناک عفریت کی صُورت اختیار کرچُکا ہے،لیکن کورونا وائرس سے زیادہ خطرناک مرض نمونیا کےمؤثر علاج اور بچاؤ کی ویکسین دستیاب ہونے کے باوجود اس مرض پر قابو پانے اور شرحِ اموات میں کمی لانے کے لیےتاحال مربوط حکمتِ عملی وضع نہیں کی گئی، لہذا اب وقت آگیا ہے کہ اقوامِ متحدہ، صحت سے متعلقہ ایجنسیز، کمپنیز اور غیر سرکاری تنظیمیں متحدو منظّم ہو کر معصوم بچّوں کی زندگیاں بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔تاہم، یہ امر قابلِ ستایش ہے کہ بعض ترقّی پذیر مُمالک میں بشمول پاکستان بین الاقوامی اداروں اور جی اے وی آئی کے تعاون سے"Pneumococcal and Haemophilus vaccine"فراہم کی جارہی ہے۔ ‘‘

نمونیا ،پھیپھڑوں کی سوزش کا ایک ایسا عارضہ ہے، جس میں پھیپھڑوں میں سیال مادّہ یا پیپ جمع ہوجاتی ہے۔ نمونیا عُمر، جراثیم یا عمومی صحت کی بنا پر معمولی سے لے کر شدید نوعیت کا ہوسکتا ہے۔اس مرض کے لاحق ہونے کی کئی وجوہ ہیں۔ مثلاً بیکٹیریا، وائرس یا فنگس وغیرہ۔تاہم ان میںسب سے عام وجہ بیکٹیریا ہے۔ان تینوںاسباب کی بھی مختلف اقسام ہیں۔جیسے بیکٹیریا میں اسٹریپٹو کوکس، لیگونیلا نمونیا،انفلوئنزا، مائکو پلازما، جب کہ وائرسز میں سارس،Respiratory Syncytial Virus، کووڈ-19،فنگس میں نیموسیٹس نمونیا، ہسٹوپلازموسس، سائٹوکوکوکس اور مائیکوسس وغیرہ شامل ہیں۔

نمونیا جن افراد کو جلد متاثر کرتا ہے، اُن میں دو سال سے کم عُمر بچّے،65 برس سے زائد عُمر کے بزرگ، کیمیائی زہریلے بخارات اور آلودہ ماحول میں رہنے والے، تمباکو اور شراب نوشی کی لت میں مبتلا، کم زور قوتِ مدافعت کے حامل، پھیپھڑوں سے متعلقہ کسی بیماری سے متاثرہ، غذائی قلّت کے شکار، کھانسنے اور تھوکنے میں دشواری کا سامنا کرنے والے،اسپتال، بالخصوص آئی سی یو میں شدید علیل مریضوں کے ساتھ رہنے والے اور حال ہی میں نزلہ، زکام سے متاثرہ افراد شامل ہیں۔

اس کی عام علامات ہیں، بخار چڑھنا، سردی لگنا ،بلغمی کھانسی ، سانس لینے میں دشواری، سانس کا تیز چلنا، سینے میں درد یا جکڑن،نزلہ زکام، سُستی، بےچینی، متلی اور اسہال۔ واضح رہے، نوزائیدہ بچّوں میں علامات مبہم اور غیر واضح ہوتی ہیں،جب کہ ان میں کھانے پینے سے عدم رغبت، انتہائی سُست ہوجانا، پسلیوں کا چلنا، جھٹکے لگنا اورچہرے اور ہاتھوں کا نیلا پڑ جانا جیسی علامات خطرناک ثابت ہوسکتی ہیں۔

ایک اور بات ذہن نشین کرلیں کہ بچّوں میں ان کی عُمر کی مناسبت سے سانس لینے کی رفتار مختلف ہوتی ہے۔ جیسے دو ماہ کی عُمر میں فی منٹ سانس کی رفتار60سے زائدہے، تو 11سے12ماہ کے بچّے میں 50سےزائد،11سے59ماہ کے بچّے میں 40سے زائد ۔علاوہ ازیں، نمونیا کی کئی پیچیدگیاں ایسی ہیں، جو جان لیوا ثابت ہوسکتی ہیں۔مثلاً خون میں خطرناک حد تک جراثیم شامل ہوجانا، پھیپھڑوں میں پیپ بھرجانا، پھیپھڑوں کی بیرونی جھلّی کا متاثر ہونا یا اس میں پانی بھر جانا،گُردے ناکارہ ہوجانا اور نظامِ تنفس کا فیل ہوجانا وغیرہ۔

نمونیا کی تشخیص کے لیے سب سے پہلے بخار، سانس لینے کی رفتار اور آلے کے ذریعے سینے سے غیر معمولی آوازوں کی جانچ کی جاتی ہے، جب کہ طبّی معائنے کے لیے ایکس رے، خون اور بلغم کے ٹیسٹس تجویز کیے جاتے ہیں،تاکہ ایکس رے کے ذریعے یہ پتا چل سکے کہ پھیپھڑوں کا انفیکشن کس حد تک پھیل چُکا ہے۔ بلڈ ٹیسٹ کی مدد سے خون میں پائے جانے والے انفیکشنز اور ان کی شدّت جانچی جاتی ہے،جب کہ بلغم کا ٹیسٹ جراثیم، پیپ اور ٹی بی وغیرہ کی تشخیص کے لیے کروایا جاتا ہے۔

نمونیا کے پیچیدہ کیسز میں سی ٹی اسکین، آکسیجن کی مقدار جانچنے کے علاوہ الٹراساؤنڈ اور سانس کی نالی کے اندرونی معائنے کے لیے Broncho Scopyبھی تجویز کی جاسکتی ہے۔اگر علاج معالجے کی بات کی جائے، تو اس ضمن میں سب سے پہلے تویہ دیکھا جاتا ہے کہ نمونیا لاحق ہونے کا سبب کوئی بیکٹیریا ہے،وائرس یا پھر فنگس۔ پھر اِسی مناسبت سے ادویہ تجویز کی جاتی ہیں۔لہٰذا کام یاب علاج کے لیے درست تشخیص ناگزیر ہے۔

نیز، سانس لینے میں دشواری کی صُورت میں مریض کو مصنوعی طریقے سےآکسیجن بھی فراہم کی جاتی ہے۔بچّوں میں نمونیا کی شرح کم کرنے کا سب سے مؤثر طریقۂ علاج ویکسین ہے، جس کے استعمال سے نمونیا کی شرحِ اموات پر بھی قابو پایا جاسکتا ہے۔ گرچہ نمونیا کی ویکسین قومی امیونائزیشن پروگرام کا حصّہ ہے اور مفت فراہم کی جاتی ہے، اس کے باوجود مرض کی شرح میں کمی نہ آنا اور اموات کی اتنی بڑی تعداد ایک المیے سے کم نہیں۔

حفظانِ صحت کے اصولوں پر عمل پیرا ہوکر اور صحت مندانہ طرزِ زندگی اپنا کر بہت حد تک نمونیا سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔مثلاً صفائی ستھرائی کا خیال رکھنا، ہاتھ دھونا، کھانستے اور چھینکتے ہوئے ٹشو یا رومال استعمال کرنا۔ اگر کسی بچّے میں نمونیا کی علامات ظاہر ہوں،تو اَز خود علاج کی بجائےفوری کسی ماہرِ امراضِ اطفال سے رجوع کیا جائے کہ درست تشخیص اور علاج نہ ہونے کے باعث یہ مرض جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔

(مضمون نگار، معروف ماہرِ امراضِ اطفال ہیں اور کھارادر جنرل اسپتال، کراچی میں بطور چیف ایگزیکیٹو آفیسر فرائض انجام دے رہے ہیں)

تازہ ترین