امریکی صدارتی انتخابات ہمیشہ ہی سے پوری دنیا کو اپنی جانب متوجہ کر لیتے ہیں مگر 2020 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے متضاد پہلوئوں نے اس انتخاب کو انتہائی دلچسپ اور منفرد بنا دیا ہے۔ٹرمپ کے اس بیان نے کہ وہ ہار جانے کے بعد بھی مزید 4 سال وائٹ ہائوس خالی نہیں کریں گے‘ امریکہ میں سول وار کا خطرہ پیدا کر دیا ہے۔ ٹرمپ کا دوسرا بڑا ٹرمپ کارڈ پوسٹ کے ذریعے ووٹ دینےکو دھاندلی کا نام دینا ہے۔ ان انتخابات میں کرونا کی وجہ سے ووٹ بذریعہ پوسٹ پر بہت زیادہ انحصار کیا جائے گا۔ خاص طور پر ڈیمو کریٹس میں یہ طریقہ بہت مقبول ہے۔ 2016کے انتخابات میں ریپبلکن اس دعویٰ کو ثابت نہیں کر پائے تھے جب ہر چوتھا ووٹ پوسٹ کے ذریعے ڈالا گیا تھا۔ پوسٹ کے ذریعے ووٹوں کی تعداد میں حیران کن اضافہ ہو جاتا ہے جو بہرحال ڈیمو کریٹس کے لئے فائدہ مند ہے۔ ٹرمپ نے اپنے ووٹروں سے درخواست کی ہے کہ وہ دنیا میں جہاںکہیںبھی ہوں،ووٹ پولنگ بوتھ میں جا کر دیں اگر ٹرمپ کے ووٹر پولنگ بوتھ پر عام طریقہ سے ووٹ دیں گے اور بائیڈن کے ووٹر پوسٹ کے ذریعے توچار نومبرکو ٹرمپ جیت جائے گا اور اگر حتمی نتائج میں اسے شکست ہو گئی تو وہ سادہ لوح ووٹروں کو مشتعل کر کے ایک فساد برپا کر دے گا کہ اس کے ساتھ دھوکا ہو گیا ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ نے 16جون 2020 سے امریکن پوسٹل سروس میں پوسٹ ماسٹر جنرل کے عہدے پر ری پبلکن میگا ڈونر لوئیس ڈی جوائے کو فائز کر دیا ہے۔ انہوں نے پچھلے پانچ سالوں میں کئی ملین ڈالر پارٹی کی انتخابی مہم میں انفرادی اور صدارتی امیدواروں کیلئے بطور فنڈ ادا کئے ہیں۔
ٹرمپ نے محکمۂ پوسٹ کی جانب سے اضافی رقم کی درخواست بھی مسترد کر دی ہےتاکہ پوسٹل سروس مشکلات کا شکار ہو جائے۔ عام خیال ہے کہ لوئیس ڈی جوائے ووٹوں کی ترسیل اور گنتی کی رفتار کو سست کر سکتے ہیں۔الیکشن کمشنر ایلن وائن ٹرائوب کا دعویٰ ہے کہ کمیشن کسی بھی ووٹ کو ضائع نہیں ہونے دے گا۔ سپریم کورٹ کی87سالہ جج رتھ گنسبرگ عورتوں کے مساوی حقوق، موت کی سزا، اسقاط حمل ،اسلحہ کے بارے میں قوانین اور پسے ہوئے طبقوں سے امتیازی سلوک کے حوالوں سے لبرل خیالات کی مزاحمتی نمائندہ تصور کی جاتی تھیں۔ان کے انتقال کے بعد ڈیمو کریٹ ایک لبرل جج سے محروم ہو گئی ہے۔ گنسبرگ کی خواہش تھی کہ نیا جج نومنتخب صدر تجویز کرے لیکن سینیٹ کے صدر نے 3نومبر سے قبل ہی مجوزہ جج ایمی کونی بیرٹ کا نام بھیج دیاجو کیتھولک پس منظر کی وجہ سے خواتین اور قدامت پسند حلقوں کو ٹرمپ کی طرف مائل کر سکیں گی ۔ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں ڈیمو کریٹک صدارتی امیدوار جو بیڈن کی پرورش سکرانٹن، پنسلوانیا اور نیو کیسل کائونٹی، ڈینور میں ہوئی۔ 1965میں ڈینور یونیورسٹی سے بیچلرز اور 1968میں قانون کی تعلیم سائراکس یونیورسٹی نیویارک میں مکمل کی ۔ تعلیم ہی کے دوران 1966میں نیلا ہنٹر سے شادی ہوئی جن سے جوبیڈن کے تین بچے ہیں۔
1968میںڈیلاویئرمیں اٹارنی کی حیثیت سے کام کرنا شروع کر دیا ۔سیاست میں آنے سے قبل جوبیڈن 1972تک کائونٹی کونسل میں ملازمت کرتے رہے اور اسی سال سینیٹ کے سب سے کم عمر نمائندے منتخب ہوئے۔ لیکن بدقسمتی سے ان کی بیوی اور بیٹی ایک کار حادثے میں ہلاک ہو گئیں۔ اور دو بیٹے شدید زخمی ہو گئے، لہٰذا انہیں ایک سال کے لئے اپنی سیاسی سرگرمیاں ترک کرنی پڑیں۔
جوبیڈن مسلسل 6مرتبہ سینیٹر منتخب ہوئے جو امریکہ کی تاریخ میں سب سے لمبی مدت کے لئے سینیٹر منتخب ہونے کا اعزاز ہے۔ سیاست کے ساتھ ساتھ 1991-2008تک ول منگٹن یونیورسٹی ڈیلاویئر میں قانون کے پروفیسر رہے۔سینیٹر کی حیثیت سے جو نے خارجہ تعلقات ،جرم کے خلاف انصاف اور ڈرگ پالیسی بنانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔انٹرنیشنل ڈرگ کنٹرول کی قومی ڈرگ پالیسی بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا تاکہ ڈرگ سے متعلق سرگرمیوں پر نظر رکھی جاسکے۔ جوبیڈن کے حامی ان کو اوباما کے مقابلے میں بہتر صدر کے طور پر پیش کر رہے ہیں‘ ان کی نظر میں اوباما ایک بہترین سیاست دان ہونے کے باوجود ایک جلد باز اور اپنی پالیسیوں کو پسندیدہ اور قابلِ عمل بنانے میں جو کے محتاج تھے۔اگست 2020میں جوبیڈن نے انڈین نژاد جیورسٹ کمالا ہیرس کو نائب صدر کے عہدے کے لئے منتخب کر لیا ہے جو اپنے انڈین جمیکن پس منظر کی وجہ سے پہلی خاتون ہیں جنہیں یہ نامزدگی حاصل ہوئی ہے ۔ جوبیڈن کے مقابلے میں ٹرمپ کی عوامی رابطہ مہم ایک راک اسٹار کی مانند متاثر کن اور پرجوش ہے لیکن جوبیڈن کے انتخابی انچارج کے خیال میں یہ فیصلہ کن نہیں۔ ان کے 2500کارکن ٹیلی ویثرن، ریڈیو اور اشتہارات پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔ لیکن نیویارک ٹائمز کا اصرار ہے کہ جوبیڈن کو میدان میں زیادہ محاذ آرائی کرنی چاہئے۔دونوں پارٹیوں کے قومی اجلاس گہما گہمی اور پرجوش کارکنان کی کمی کی وجہ سے ٹیلی ویژن پر ناظرین کو زیادہ متوجہ نہ کر سکے۔ کم آمدنی والوں کیلئے اضافی سہولتیں،بچوں کی نگہداشت، صحت عامہ کے پروگرام اور ان کی قانونی سرپرستی کی وجہ سے جوبیڈن کو ٹرمپ پر نفسیاتی برتری حاصل ہے۔ تازہ ترین صورت حال کے پیش نظر قومی رائے شماری میں جوبیڈن %49.9اور ٹرمپ %42.3آرا حاصل کر پائے ہیں مگر یہ رائے شماری کبھی رائے عامہ کو متاثر نہیں کرتی۔آخری فیصلہ 4نومبر کا ہی حتمی ہو گا جبکہ ڈونلڈٹرمپ کے ارادوں کے مطابق فیصلہ کافی تاخیر سے ہو گا بہرحال یہ بات تو طے ہے کہ یہ انتخابات مدتوں امریکی سیاست پر اثر اندازہوتے رہیں گے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)