وفاقی کابینہ نے یکم نومبر سے صنعتوں کو سستی بجلی فراہم کرنے کے لئے جس بڑے پیکیج کا اعلان کیا ہے اُس پر اُس کی روح کے مطابق موثر عملدرآمد ہوگیا تو نہ صرف ملک میں صنعتی ترقی کی رفتار تیز ہو جائے گی بلکہ ملکی معیشت میں بھی استحکام آئے گا، بےروزگاری کے خاتمے میں مدد ملے گی اور ضروری اشیا کی بڑھتی ہوئی قیمتوں میں کمی آئے گی جس کا فائدہ عام آدمی تک پہنچے گا۔ وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت منگل کو کابینہ نے صنعتی صارفین کے لئے جس منصوبے کی منظوری دی اُس کے تحت چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں کے لئے اضافی بجلی پر 50فیصد جبکہ بڑی صنعتوں کے لئے 25فیصد رعایت کی منظوری دی ہے اور اس پر عملدرآمد کے لئے وفاقی حکومت 21ارب روپے کی سبسڈی دے گی۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ ماضی میں مہنگی بجلی بنانے کے معاہدے کئے گئے جن کی وجہ سے صنعتوں کو مہنگی بجلی دی جا رہی ہے۔ اس سے پیداواری عمل متاثر ہوا اور برآمدات میں کمی ہوئی ہے جو 25ارب ڈالرسے کم ہو کر 20ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔ پیکیج کے تحت صنعتی شعبے کے لئے آئندہ کوئی پیک آور نہیں ہوگا۔ چھوٹے اور درمیانے سائز کی صنعتوں کے لئے پیک اور آف پیک ٹائم کا امتیاز ختم کردیا گیا ہے اس سےچھوٹے سرمایہ کاروں اور صنعت کاروں کو فائدہ ہوگا۔ اس رعایت پر 21اپریل کے بعد نظر ثانی ہوسکے گی تاہم بڑی صنعتوں کے لئے 25فیصد رعایت 3سال کے لئے ہوگی۔ وزیراعظم نے اجلاس میں کہا کہ سستی بجلی کے پیکیج سے ملک کی صنعتی ترقی میں اضافہ ہوگا۔ معیشت مضبوط ہوگی اور برآمدات میں اضافے سے روپے کی قدر بھی مستحکم ہوگی، اُنہوں نے کورونا کی نئی لہر کی شدت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم اِس عرصے میں کاروبار اور صنعتیں بند نہیں کریں گے اور صنعتوں کو ایس او پیز پر چلائیں گے۔ بعد میں وفاقی وزرا شبلی فراز، اسد عمر، حماد اظہر اور عمر ایوب نے کابینہ کے فیصلوں سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ بجلی کے پیک اور آف آورز دونوں کا ٹیرف یکساں کردیا گیا ہے۔ صنعتیں اب تیسری شفٹ بھی چلاسکیں گی، ان کا کہنا تھا کہ ماضی کی حکومتوں نے بجلی بنانے کے لئے 24روپے فی یونٹ معاہدے کئے جو ہم ساڑھے چھ روپے فی یونٹ پر لے آئے ہیں، یہ امر خوش آئند ہے کہ صنعتوں کو سستی بجلی فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو اُن کی اشد ضرورت تھی حکومت معاشی ترقی کے لئے جو اقدامات کر رہی ہے اس کے نتائج بھی اب سامنے آنے لگے ہیں۔ گاڑیوں، سیمنٹ اور فرٹیلائزر کی فروخت اور کھپت بڑھ گئی ہے زراعت اور صنعتوں کا پہیہ چلانے کے لئے 152ضروری اشیا پر اضافی درآمدی ڈیوٹی ختم کردی گئی ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی معاشی استحکام کے حوالے سے قومی مفاد میں نجی شعبے کی ہر صورت مدد کرنے پر زور دیا ہے اور ایف ڈبلیو او ہیڈکوارٹر کے دورے کے دوران قومی اہمیت کے منصوبوں کو بروقت مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے جس سے ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت کی سوچ میں ہم آہنگی کا پتا چلتا ہے۔ حکومت نے صنعتوں کو بجلی کی قیمتوں میں ریلیف دے کر ایک اہم قدم اٹھایا ہے اور مناسب سبسڈی بھی دی ہے۔ تاہم یہ بات ملحوظ رکھنی چاہئے کہ آئی ایم ایف نے توانائی کے شعبے میں ایک ہزارارب روپے کے گردشی قرضے کی ادائیگی کے لئے بجلی کے نرخ بڑھانے کا مطالبہ کیا ہے جس کے بغیر پاکستان کیلئے اس عالمی ادارے کے پروگرام پر مزید پیش رفت نہیں ہو سکے گی۔ حکومت کو اپنے مثبت اقدامات اور عالمی اداروں کے تقاضوں میں توازن پیدا کرنے پر بھی سوچ بچار کرنا ہوگا۔ اس طرح کے مسائل کے باوجود عام آدمی کو ریلیف دینا حکومت کی ایک بڑی کامیابی ہے۔ توقع ہے کہ یہ سلسلہ دوسری شعبوں تک بھی بڑھایا جائے گا۔