پی ڈی ایم نے چاروں صوبوں میں جلسے کرکے تحریک کا پہلا فیز کامیابی سے مکمل کرلیا ہے،دوسرے فیز کا پہلا جلسہ 30 نومبر کو ملتان میں ہونے جارہا ہے ، جسے خاصا اہم قراردیا جارہا ہے اور کہا یہ جارہا ہے کہ ملتان کا جلسہ صحیح معنوں میں جنوبی پنجاب بلکہ ملک بھر کے سیاسی درجہ حرارت کا تعین کرے گا ،اس کا ادراک حکومت اور اپوزیشن دونوں کو ہے ،اس لئے دونوں جانب سے بھرپور زور لگایاجارہاہے ، حکومت کی یہ کوشش ہےکہ پی ڈی ایم کے اس جلسہ کو ناکام بنایا جائے، جس کے لئے مقامی پی ٹی آئی رہنماؤں کو ٹاسک بھی دے دیا گیا ہے۔
اس گیپ کے دوران جلسہ کے دن تک پی ڈی ایم کے خلاف عوام کی ذہن سازی کے لئے ان کے بیانیہ کو ملک کے خلاف قرار دینے پر مبنی بینرز ،پوسٹرز آویزاں کئے جائیں گے ،مقامی رہنما اپنی پریس کانفرنسوں ، عوامی اجتماعات اور میٹنگوں میں اپوزیشن کو اپنے ہدف پر رکھیں گے،جس کا آغاز بھی ہوچکا ہے ،مسلم لیگ ن کے ناراض اراکین اسمبلی کو بھی متحرک کردیاگیا ہے۔دوسری جانب مسلم لیگ ن اور پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں بھی خم ٹھونک کر سامنے آگئی ہیں ،انہوں نے بھی حکومت سے ملتے جلتے اقدامات شروع کردیے ہیں ،ان کی جانب سے بھی حکومت کے متنازعہ اقدامات بارے بینرز ،پوسٹرز آویزاں کئے جارہے ہیں ،جبکہ مرکزی قائدین خود میدان میں آگئے ہیں اورالزامات در الزامات کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔
ملتان میں مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما مخدوم جاوید ہاشمی حسبِ معمول فرنٹ لائن پر ن لیگ کو دفاع کرتے نظر آئے۔الزاماتی سیاست کیا اثرات مرتب کرے گی، اِس کا فیصلہ تو آنے والا وقت کرے گا ،تاہم حکومت کو عوام کی بے چینی کی اصل وجہ مہنگائی ،بے روزگاری کے پہلو پر سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے ، حکومت کے پاس ابھی تک سوائے اپوزیشن کے بیانیہ کو ہدفِ تنقید بنانے کے اور کوئی لائحہ عمل نظر نہیں آرہا۔
اگر حکومت مہنگائی کو ہی قابو کرلیتی ،تو اس کی دیگر خامیوں پر پردہ پڑجاتا اور عوام اس طرح باہر جلسوں میں نہ آتی ،جس طرح اب اپوزیشن کے جلسوں میں آرہی ہے ، اگرچہ عام انتخابات میں تحریک انصاف نے جنوبی پنجاب میں نمایاں کامیابی حاصل کی تھی ،خاص طور پر ملتان سے کلین سویپ کیا مگر آج صورتحال خاصی تبدیل ہوچکی ہے، ناقص معاشی پالیسیوں اور اپنے وعدوں و منشور سے روگردانی پر پی ٹی آئی کاگراف خاصہ نیچے آیا ہے، جس کا اپوزیشن کامیابی سے فائدہ اٹھا رہی ہے۔
30نومبر کے جلسہ ملتان کے لئے اتفاق رائے سے میزبانی پیپلزپارٹی کو دی گئی ہے ،یادرہے کہ 30 نومبر کو پیپلزپارٹی کا یوم تاسیس بھی ہے، اس بار پیپلزپارٹی کے یوم تاسیس کی مرکزی تقریب ملتان میں ہونا تھی، مگر پی ڈی ایم کی تشکیل کے بعد یہ طے پایا تھا کہ شامل جماعتوں کے تمام جلسے جلوس پی ڈی ایم کے مشترکہ پلیٹ فارم سے ہوں گے، جس پر ملتان میں پیپلزپارٹی کے ہونے والے یوم تاسیس کے جلسہ کو پی ڈی ایم کا جلسہ قرار دے دیا گیا ،جس میں پی ڈی ایم کی تمام مرکزی قیادت شامل ہوگی۔
اس کو کامیاب بنانے کے لئے یہاں کے سیاسی رہنما متحرک ہوچکے ہیں اور تیاریوں کا سلسلہ جاری ہے ،نہ صرف پیپلزپارٹی بلکہ مسلم لیگ ن ،جمعیت علمائے اسلام (ف) اور دیگر جماعتوں کے رہنما بھی اس سلسلہ میں سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں، تمام جماعتیں اپنے کارکنوں کو متحرک کررہی ہیں اورزیادہ سے زیادہ لوگوں کو جلسہ گاہ تک لانے کے لئے لائحہ عمل مرتب کیاجارہاہے ،گلی محلوں میں کارنر میٹنگزبھی شروع ہوچکی ہیں،پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے بھی اس سلسلہ میں ملتان کا دورہ کیا اور انہوں نے جنوبی پنجاب بھر کے جمعیت کے عہدے داروں ،ذیلی تنظیموں کے عہدے داروں سے ملاقاتیں کیں اور انہیں جلسہ ملتان کو کامیاب بنانے کے لئےبھرپورکرداراداکرنے کی ہدایت کی۔
انہوں نے میڈیا سےبتا کرتے ہوئے کہا کہ ملتان کا جلسہ تاریخی ہوگا ،پی ڈی ایم ملکی بقا کے لئے جدوجہد کررہی ہے ،پی ڈی ایم میں پھوٹ ڈالنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوگی۔سابق وزیراعظم سیدیوسف رضا گیلانی بھی جلسہ ملتان کو کامیاب کرانے کے لئے پوری طرح فعال ہوگئے ہیں، انہوں نے طویل عرصہ سے خود ساختہ کورنٹائن ختم کردیا ہے اور عہدے داروں و کارکنوں سے ملاقاتیں کررہے ہیںتاکہ ملتان کے جلسہ کو کامیاب کرایا جاسکے۔
پیپلزپارٹی جنوبی پنجاب کا اجلاس بھی بلاول ہاؤس ملتان میں ہوا ،جس میں عہدے داروں کو کارکنوں کو فعال کرنے اورجلسہ ملتان کو کامیاب کرنے کے لئے بھرپور عوامی شرکت کے لئے ٹاسک دیے گئے ، اگر پی ڈی ایم ملتان میں ایک بڑا جلسہ کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے ،تو یہ بات ثابت ہوجائے گا کہ پی ڈی ایم عوام کو حکومت کے خلاف متحرک کرنے میں کامیاب ہوچکی ہے اور اس کے بیانیہ کو عوام میں پذیرائی مل رہی ہے،اس لئے اپوزیشن اپنا پورا فوکس اسے کامیاب کرانے کے لئے اور حکومت اسے ناکام بنانے میں صرف کررہی ہے۔