سپریم کورٹ نے سندھ حکومت کو اراضی سے متعلق قوانین میں شامل سندھی الفاظ کو عام فہم بنانے کی ہدایت کردی جبکہ سندھ میں آبپاشی کے پلانٹس کی ملکیت حکومتِ سندھ کو دینے کا معاملہ لینڈ کلکٹر کو بھجوانے کا حکم دے دیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے سندھ میں آبپاشی کے پلانٹس کی ملکیت حکومتِ سندھ کو دینے کے معاملے میں سندھ بورڈ آف ریونیو کے فیصلے خلاف اپیل پر سماعت کی۔
سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ کراچی میں حالیہ بارشوں سے جگہ جگہ پانی کی گزر گاہیں بنیں، کیا وہ بھی حکومتِ سندھ کے ملکیت ہیں؟ کیا ڈی ایچ اے کراچی کی زمین بھی سندھ حکومت کی ہے؟ بیوروکریسی کے پاس بے پناہ اختیارات ہیں، وہ جو چاہے کرے؟
عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے استفسار کیا کہ سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو نے سندھ میں آبپاشی کے پلانٹس کی ملکیت حکومت سندھ کو دینے کا فیصلہ کیا جس کا سندھ کے عوام کو علم ہی نہیں۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ سندھ کے تمام ڈپٹی کمشنرز کو آگاہ کردیا گیا تھا۔
عدالت نے گزشتہ سماعت پر پیش نہ ہونے پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کو 50 ہزار روپے جرمانہ کیا۔
اس پر نظرِثانی کی اپیل کی گئی تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا اگر اس عدالت کے فیصلے بے معنی ہیں تو ہم ان کو معنی خیز بنانا جانتے ہیں۔
انھوں نے مزید ریمارکس دیے کہ سندھ بورڈ آف ریوینو کی کارکردگی پر حیران و پریشان ہیں۔
سپریم کورٹ نے سندھ میں آبپاشی کے پلانٹس کی ملکیت حکومتِ سندھ کو دینے کا معاملہ لینڈ کلکٹر کو بھجوانے کا حکم دے دیا۔
عدالت نے سندھ حکومت کو اراضی سے متعلق قوانین میں شامل سندھی الفاظ کو عام فہم بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس نمٹادیا گیا۔