• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزرے دنوں کی بات ہے۔ امامِ ربّانی، حضرت مجدّد الفِ ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی بعض کتب کے مطالعے کا موقع ملا، جن کا اُردو ترجمہ نقش بندیہ سلسلے کے معروف صوفی بزرگ، حضرت سیّد زوّار حسین شاہؒ نے کیا تھا۔ اُن کتب کے’’ مقدمے‘‘ یا’’ پیش لفظ‘‘ میں بار بار اِس بات کا ذکر تھا کہ’’ فلاں کتاب کا قدیم قلمی نسخہ مولانا عبدالرشید نعمانی کے ذخیرۂ کتب سے ملا اور فلاں مخطوطہ مولانا عبدالحلیم چشتی نے فراہم کیا۔‘‘ یوں ان دونوں بزرگوں سے متعلق جاننے کا تجسّس ہوا، جو اس قدر وقیع علمی خزانہ سنبھالے ہوئے تھے۔ ایک روز کراچی کی معروف دینی درس گاہ، جامعۃ الرشید(احسن آباد) کے ایک پروگرام میں دوست نے ایک بزرگ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتایا’’ وہ ہیں چشتی صاحب۔‘‘ پُروقار شخصیت کے مالک، نام کی طرح حلیم اور عجز و انکسار کے پیکر، اُن کے بارے میں پہلا تاثر یہی اُبھرا اور حقیقت بھی یہی تھی۔

خاندان، تعلیمی سفر

مولانا عبدالحلیم چشتی 16 اپریل 1929ء کو جے پور(بھارت) میں پیدا ہوئے۔والد، مولانا عبدالرّحیم خاطر جے پوری عالمِ دین، شاعر اور اپنے دَور کے معروف خطّاط تھے۔ انجمن ترقیٔ اُردو ہند، علی گڑھ کی جانب سے 1963ء میں شایع ہونے والی کتاب’’ صحیفۂ خوش نویساں‘‘ میں اُن کا تذکرہ شامل ہے۔ انساب سے متعلق معروف کتاب’’ مرآۃ الانساب‘‘ اُن ہی کے قلم سے لکھی گئی، جس کے نسخے اب بھی موجود ہیں۔وہ’’ خاطر‘‘ تخلّص کیا کرتے۔اُن کا پرنٹنگ کا کاروبار تھا، جو’’ مطبعِ رحیمی‘‘ کے نام سے مشہور تھا۔قیامِ پاکستان کے بعد کراچی آگئے اور یہیں 24 جنوری 1954ء کو وفات پائی۔اُن کے پانچ بیٹوں میں سے تین نے علمی دنیا میں خُوب نام کمایا۔بڑے بیٹے، مولانا عبدالرشید نعمانی ( وفات، 12 اگست 1999ء)تھے، جنھیں ایک محقّق کے طور پر تسلیم کیا گیا۔

اُن کی بہت سی کتب نے علمی حلقوں سے داد سمیٹی، جن میں’’ لغات القرآن‘‘ کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ اُن کے بعد مولانا عبدالعلیم ندوی تھے، جنھوں نے ندوۃ العلماء لکھنؤ سے تعلیم حاصل کی اور پھر زندگی پھر اس شمع کو روشن کیے رکھا۔کئی کتابوں کے مصنّف تھے۔ اُنھوں نے 21ستمبر1987ء کو حیدرآباد (سندھ) میں وفات پائی۔تیسرے نمبر پر مولانا عبدالحلیم چشتی تھے، جن کے تصنیفی، تدریسی اور تحقیقی کام کی ایک دنیا معترف ہے۔ پھر مظفّر لطیف اور ڈاکٹر عبدالرحمٰن غضنفر کا نمبر تھا، جو خود بھی علمی ذوق کے حامل اور اپنے ذاتی کتب خانے رکھتے تھے۔اِس خانوادے کی دینی خدمات شمار سے باہر ہیں۔ 

مولانا ڈاکٹر عبدالحلیم چشتی نعمانیؒ
مُلکی و غیر مُلکی اسفار کے دَوران علمی مجالس سے بھی خطاب کرتے

اِس ضمن میں وفاق المدارس کے سربراہ اور استاذ العلماء، مولانا سلیم اللہ خان ؒ نے لکھا ہے’’ اِس خاندان کی عظیم الشّان علمی، دینی خدمات اور قابلِ رشک حدیثی اور فقہی تحقیقات روزِ روشن کی طرح واضح ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اِس خاندان کو دینِ اسلام کے ساتھ فکری و علمی اعتبار سے مضبوط تعلق اور وابستگی سے سرفراز فرمایا ہے۔‘‘ اِسی طرح ایک اور بزرگ، سیّد نفیس الحسینیؒ نے تحریر فرمایا’’ منشی محمد عبدالرحیم خدا یاد، شب زندہ دار بزرگ تھے۔ سلسلۂ عالیہ چشتیہ نظامیہ میں شرفِ بیعت و اجازت رکھتے تھے۔ خطّاطی کو رزقِ حلال کا ذریعہ بنایا۔‘‘( بحوالہ: مرآۃ الانساب)جامعۃ الرشید کے سرپرستِ اعلیٰ اور معروف عالمِ دین، مولانا مفتی عبدالرّحیم نے ایک تعزیّتی ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ’’اِس خانوادے کے بارے میں کچھ کہنا سورج کو چراغ دِکھانے کے مترادف ہے۔مولانا عبدالرشید نعمانیؒ اور مولانا عبدالحلیم چشتی ؒان دونوں بھائیوں کا مزاج تحقیقی تھا۔‘‘مولانا عبدالحلیم چشتی نے ابتدائی تعلیم مدرسہ تعلیم الاسلام( جے پور) اور مدرسہ نظامیہ(حیدرآباد دکن) سے حاصل کی۔ 

اُنھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم کا احوال کچھ یوں بیان کیا ہے’’ والد صاحب مجھے عالم بنانا چاہتے تھے، تاہم ابتدا میں میرا دل پڑھنے لکھنے کی طرف راغب نہیں تھا۔ شاید اِس کی وجہ یہ تھی کہ تایا کے بچّے انگریزی تعلیم حاصل کر رہے تھے، وہ مالی طور پر خوش حال تھے اور اُن کا رہن سہن جدید تھا۔ میری پٹائی بھی ہوئی، مگر اُس کا اثر نہ ہوا، تو والد نے مجھے دُکان پر بِٹھا دیا اور خود میرے بڑے بھائی کے ساتھ حیدرآباد دکن منتقل ہوگئے۔ تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے مَیں نے جلد ہی دُکان لُٹا دی۔ اِسی دوران بھائی کی شادی ہوئی، تو کم عُمری کے باوجود میری بھی شادی کردی گئی۔ بہرحال، مجھے بھی حیدرآباد دکن بلا لیا گیا، جہاں والد صاحب کا دفتر علمی و ادبی تہذیب کا گہوارہ تھا۔ بڑے بڑے علماء، فضلا یہاں آتے، محفلیں جمتیں، علمی بحثیں مشاعرے ہوتے۔

اب ان لوگوں کے سامنے شرم آنے لگی کہ مجھے تو کچھ نہیں آتا، یوں پڑھنے کا شوق پیدا ہوا اور طے کرلیا کہ ہر قیمت پر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنی ہے۔‘‘ اور پھر اُنھوں نے خود سے کیے گئے اِس عہد کو یوں نبھایا کہ نہ صرف خود اعلیٰ تعلیم حاصل کی، بلکہ ہزاروں طلبہ کے لیے بھی راستے بنائے۔ابتدائی تعلیم کے بعد 1943ء میں دارالعلوم دیوبند کا رُخ کیا۔ ابھی وہاں تعلیم جاری تھی کہ مُلک دو حصّوں میں تقسیم ہوگیا اور آپ خاندان کے ساتھ کراچی منتقل ہوگئے، مگر یہاں کے سخت حالات نے بھی تعلیم کی لگن کم نہ ہونے دی اور خاندان نے بھی ایسے حالات کے باوجود اُن کی بھرپور حوصلہ افزائی کی، یوں وہ اگلے ہی برس دوبارہ دارالعلوم دیوبند پہنچ گئے اور بقیہ تعلیم مکمل کرکے 1949ء میں واپس کراچی لَوٹے۔ اُن کے اساتذہ میں شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ، مولانا ابراہیم بلیاویؒ، مولانا اعزاز علی امروہویؒ، مولانا قاری محمد طیّب قاسمیؒ، مولانا سیّد فخر الحسن مراد آبادیؒ، مولانا عبدالخالق ملتانی ؒاور مفتی اعظم راجستھان، مولانا قدیر بخش بدایونیؒ جیسے اہلِ علم شامل تھے۔ اُنھوں نے اس کے بعد بھی تعلیمی سفر جاری رکھتے ہوئے کراچی یونی ورسٹی سے 1967ء میں اسلامیات اور 1970ء میں لائبریری سائنس میں ماسٹرز کیا۔ بعدازاں، 1981ء میں یہیں سے پروفیسر ڈاکٹر عبدالمعید کی زیرِ نگرانی لائبریری سائنس میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ اس حوالے سے اُنھیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ اِس مضمون میں ڈاکٹریٹ کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔

عملی زندگی کا آغاز

1949ء میں ریڈیو پاکستان سے روزگار کا آغاز ہوا، جہاں مولانا احتشام الحق تھانویؒ کے معاون کے طور پر دو سال کام کیا، جو قرآنِ پاک کی تفسیر بیان کیا کرتے تھے۔بعدازاں’’ پاکستان ہسٹاریکل سوسائٹی‘‘ سے منسلک ہوگئے۔پھر لیاقت نیشنل لائبریری میں سرکاری ملازمت مل گئی۔ 

یہ سلسلہ کوئی 14 برس جاری رہا۔ ایک ہم درد کے مشورے پر، جو بعدازاں اُن کے پی ایچ ڈی کے نگراں بنے، کراچی یونی ورسٹی کے اورینٹل سیکشن میں ملازمت کے لیے درخواست دے دی اور منتخب بھی ہوگئے۔ 10 سال بعد گریڈ 17 میں ترقّی ملی۔ کچھ عرصہ کراچی یونی ورسٹی کی مسجد میں خطیب اور مشیر مذہبی امور بھی رہے۔اِسی دَوران رخصت لے کر نائجیریا چلے گئے، جہاں’’ بیرو یونی ورسٹی‘‘ میں سینئر کیٹلاگر کی حیثیت سے 10 سال خدمات انجام دیں۔

مولانا ڈاکٹر عبدالحلیم چشتی نعمانیؒ
بس ذرا سی اِک فرصت ملی، مطالعہ شروع کردیا

درس وتدریس

آپؒ نے تصنیفی اور تحقیقی خدمات کی طرح تدریسی میدان میں بھی گراں قدر خدمات انجام دیں۔ مختلف مدارس اور دینی اداروں میں اعزازی طور پر حدیث و فقہ کی تعلیم دیتے تھے، پھر مُلک کے معروف دینی ادارے، جامعۃ العلوم الاسلامیہ، بنوری ٹاؤن سے تخصّص فی الفقہ کے نگران کے طور پر منسلک ہوئے۔اُن دنوں بڑے بھائی، مولانا عبدالرشید نعمانیؒ وہاں تخصّص فی الحدیث کے سربراہ تھے۔ جب وہ اس عُہدے سے سبک دوش ہوئے، تو مولانا عبدالحلیم چشتی اُن کی جگہ مقرّر ہوئے اور حیاتِ مستعار کے آخری لمحات تک اِس ذمّے داری کو نبھاتے رہے۔ 

اُن کی زیرِ نگرانی علمِ حدیث کے مختلف پہلوؤں پر دو سو کے قریب مقالے تحریر کیے گئے، جو بلاشبہ عصری جامعات میں پی ایچ ڈی کے لیے لکھے گئے تحقیقی مقالات سے کسی طرح کم نہیں۔نیز، گزشتہ دس برسوں سے جامعۃ الرشید کے سرپرست اور استاذ الحدیث تھے۔آپؒ تدریس کے روایتی طریقے کو پسند نہیں کرتے تھے، جس میں طلبہ کے سامنے صرف لیکچر دینے ہی کو کافی سمجھا جاتا ہے، لہٰذا اِس بات پر زور دیتے تھے کہ طلبہ کو زیادہ سے زیادہ محنت اور تحقیق کا عادی بنانا چاہیے۔محنت، تحقیق، سرزنش، حوصلہ افزائی، ترغیب اور رہ نمائی آپ کی تدریس کی نمایاں خُوبیاں تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی سرپرستی میں علمِ حدیث میں انتہائی معیاری کام سامنے آیا۔آپ کہا کرتے تھے کہ’’ آج کل علمی تربیت کا فقدان ہے۔ رجال سازی اور رجال کار تیار کرنا اساتذہ کا کام ہے۔‘‘

تصنیف و تالیف

عام مشاہدہ یہی ہے کہ تحقیقی میدان کے شہہ سوار اظہارِ خیال کے لیے عموماً مشکل اسلوب کا سہارا لیتے ہیں، تاہم ڈاکٹر عبدالحلیم چشتیؒ نے تحقیقی مواد بھی رواں، عام فہم اور آسان اسلوب میں پیش کیا، جو اُنھیں اپنے دَور کے محقّقین میں ممتاز کرتا ہے۔ اُن کی تحریر دلیل کی قوّت، مطالعے کی گہرائی کے ساتھ ادب کی چاشنی بھی لیے ہوئے ہے، جس سے اوسط علم رکھنے والا شخص بھی کسی مشکل کے بغیر مستفید ہوسکتا ہے۔ 

آپ کے قلم سے قرآن، حدیث، سیرت، تاریخ اور شخصیات سمیت مختلف موضوعات پر دو درجن کے قریب وسیع مطالعے اور اعلیٰ تحقیق پر مبنی کتب منظرِ عام پر آئیں، جن میں تراجم بھی شامل ہیں۔(1)’’فوائدِ جامعہ‘‘ بر’’ عجالۂ نافعہ‘‘، یہ حضرت شاہ عبدالعزیز محدّث دہلویؒ کے رسالے کا ترجمہ اور تشریح پر مشتمل ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ 26 صفحات کے اس رسالے کی تشریح 510 صفحات پر پھیلی ہوئی ہے۔

بقول مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ’’ حق تعالیٰ مولانا عبدالحلیم چشتی کو جزائے خیر دیں کہ اُنھوں نے انتہائی دیدہ وَری اور عرق ریزی سے کتبِ حدیث اور رجالِ حدیث سے متعلق معلومات کا اتنا وافر ذخیرہ جمع کردیا۔‘‘(2) سیّد احمد شہید کی اُردو تصانیف، اُردو ادب پر اُن کی تحریک کا اثر(3) حیاتِ وحید الزماں (4) لائبریری جامعہ کراچی میں کم یاب کتابوں کی فہرست(5) اسلامی کتب خانے: گیارہ سو صفحات پر مشتمل یہ کتاب دراصل آپ کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے۔ اس میں چھے سو کتب سے استفادہ کیا گیا اور تیس ہزار سے زاید حوالے درج کیے گئے۔ اس مقالے میں عہدِ رسالتﷺ سے عباسی دَور تک کے کتب خانوں سے متعلق تاریخ و حقائق یک جا کیے گئے۔یہ کتاب’’ اقراء وعلم بالقلم کے ثقافتی جلوے‘‘ کے نام سے بھی دو جلدوں میں چَھپی ہے۔(6) الملا علی القاری و کتابہ مرقاۃ المفاتیح(7) تذکرہ علّامہ جلال الدّین سیوطیؒ (8) حیات امام جزریؒ (9) زاد المتقین فی سلوک طریق الیقین (10) عدۃ الحصن الحصین (11) عہدِ نبویﷺ میں صحابۂ کرامؓ کی فقہی تربیت (12) الامام ابو یوسفؒ و مکانتہ فی الحدیث (13) دورِ جاہلی میں عربوں کا کتب خانہ (14) تذکرہ امام ابو داؤد طیاسی ؒ(15) حیات حسن صغانی لاہوری (16) حیات مرزا حسن علی دہلوی (17) حیات مولانا خرّم علی بلہوری (18) حیات سیّد محمّد انور شاہ کشمیری ؒ(19) تذکرہ رحیمی (20) مکّی دَور میں رسول اللہ ﷺ کے تعلیمی کارنامے (21) رموز تدریس و تربیت (22) فرزند کامل پوری و معتمد بنوری(23) تحفۃ الاخیار ترجمہ مشارق الانوار کی فقہی ترتیب۔علاوہ ازیں، آپ نے بہت سی کتب پر مقدمے، دیباچے اور تاثرات بھی لکھے، جو علم کی ایک دنیا لیے ہوئے ہیں۔کئی نادر و نایاب کتب ایڈٹ کیں، تو ماہ نامہ’’ بیّنات‘‘ کی ادارتی ذمّے داریاں بھی نبھاتے رہے، جس کے دَوران کتب پر انتہائی عالمانہ تبصرے تحریر کیے۔چوں کہ وہ بنیادی طور پر ایک نقّاد اور محقّق تھے، لہٰذا کتب اور مصنفین پر کوئی لاگ لپٹ رکھے بغیر تبصرہ فرماتے۔

سندِ حدیث

مولانا عبدالحلیم چشتی کی اسنادِ حدیث بھی انتہائی اعلیٰ تھیں۔ وہ شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ ، مولانا قدیر بخش بدایونیؒ، مولانا عبدالرشید نعمانیؒ، شیخ عبدالفتاح ابو غدہؒ، مولانا سیّد محمد اصلح الحسینیؒ اور مولانا محمّد عبیداللہ المفتیؒ سے روایت کرتے تھے، جب کہ حضرت مخدوم محمّد ہاشم ٹھٹھویؒ کا سلسلۂ سند بھی اُن تک کئی مشایخ کے ذریعے پہنچا۔ پھر یہ کہ آپ سے دنیا بھر کے ہزاروں علماء، اساتذہ اور شیوخ نے اجازتِ حدیث حاصل کی۔

سلسلۂ طریقت

مولانا عبدالحلیم چشتی سلوک و تصوّف کے بھی شناور تھے، یہ الگ بات کہ اُنھوں نے پیری مریدی کے باقاعدہ حلقے قائم نہیں کیے، شاید اس کی وجہ تواضع اور انکسار کا غلبہ تھا، تاہم اگر کوئی اصرار کرتا، تو اُسے بیعت کرلیا کرتے۔ اُن کے والد، مولانا عبدالرّحیم خاطر کا تصوّف کے چشتی سلسلے سے تعلق تھا، جب کہ بھائی، مولانا عبدالرشید نعمانیؒ کو برّصغیر پاک و ہند کے نام وَر عالمِ دین، مولانا ابو الحسن علی ندویؒ سے خلافت حاصل تھی۔ مولانا عبدالحلیم زمانۂ طالبِ علمی سے مولانا حسین احمد مدنیؒ سے چشتی سلسلے میں بیعت تھے اور اُن سے علمی و روحانی طور پر خُوب استفادہ بھی کیا۔ 

اِسی لیے نام کے ساتھ چشتی لکھا کرتے تھے، جب کہ امام ابو حنیفہؒ (حضرت نعمان بن ثابتؒ) سے محبّت کے سبب نام کے ساتھ نعمانی کا بھی اضافہ کرتے۔اُنھیں معروف روحانی شخصیت، سیّد نفیس الحسینیؒ، مولانا سیّد اصلح الحسینیؒ، شیخ الحدیث مولانا محمد عبدالرحمٰن جمالیؒ، مولانا عبدالمجید جامی نقش بندی، مدینہ منورہ، شیخ الحدیث مولانا احمد شفیع، بنگلا دیش، شیخ الحدیث مولانا عبدالواحد، شاہ انصار احمد اور مولانا عبیداللہ المفتی سے اجازت و خلافت حاصل تھی، جب کہ آپ نے خود بھی متعدّد افراد کو خلافت سے نوازا، جن میں علمائے کرام، دینی، روحانی اداروں اور مُلک کی معروف جامعات کے اہلِ علم شامل ہیں۔

علمی و روحانی اسفار

گو کہ چشتی صاحب کی تدریسی اور تحقیقی وتصنیفی خدمات اسفار میں مانع تھیں، مگر اس کے باوجود اُنھیں جب موقع ملتا، علمی اور روحانی آسودگی کے لیے سفر پر نکل پڑتے، جس کے دَوران اجتماعات میں شرکت کرتے اور علماء، روحانی شخصیات سے ملاقاتیں کرتے، ان سے علمی موضوعات پر مذاکرہ اور خطاب کرتے۔ اُنھوں نے نائجیریا، ایران، تُرکی، لندن، ثمر قند، بخارا اور حرمین شریفین کا بار ہا سفر کیا، جب کہ اندرونِ مُلک بھی متعدّد سفر کیے۔

رحلت اور سفرِ آخرت

مولانا ڈاکٹر محمد عبدالحلیم چشتی نعمانیؒ طویل العمری کے باوجود قابلِ رشک صحت کے مالک تھے۔ نمازِ فجر کے بعد واک کی عادت تھی، جسے شاید ہی کبھی تَرک کیا ہو۔ اکثر کہا کرتے تھے’’ میاں چلتے رہو گے، تو چلتے رہو گے۔‘‘جب تک اُن کے روحانی مرشد، شاہ نفیس الحسینیؒ حیات رہے، رمضان المبارک اُن کے پاس لاہور میں ذکر وفکر کرتے گزارتے۔ تاہم پچھلے ایّامِ رمضان جامعۃ الرشید ہی میں گزارے اور آخری رمضان کی تروایح بھی کھڑے ہوکر پڑھی۔ 

کچھ دنوں سے طبیعت ناساز تھی، جس کے سبب اُنھیں ایک نجی اسپتال میں داخل کروایا گیا، جہاں علم و تحقیق، تہذیب و روایات کے یہ شان دار امین 12 اکتوبر 2020ء کو خالقِ حقیقی سے جاملے۔ اُن کی دو بار نمازِ جنازہ پڑھائی گئی۔ پہلی نمازِ جنازہ جامعۃ الرشید میں جامعہ کے شیخ الحدیث، مولانا مفتی محمّد کی اقتدا میں ادا کی گئی، جب کہ دوسری نمازِ جنازہ جامعۃ العلوم الاسلامیہ، بنوری ٹاؤن میں اُن کے صاحب زادے، ڈاکٹر حافظ محمّد ثانی نے پڑھائی، جس میں علماء اور طلبہ سمیت ہر شعبۂ زندگی سے وابستہ ہزاروں افراد نے شرکت کی۔بعدازاں، اُنھیں جامعۂ کراچی کے قبرستان میں سپردِ خاک کردیا گیا۔

اولاد

ڈاکٹر عبدالحلیم چشتی نے دو نکاح کیے۔ پہلا نکاح کم عُمری میں ہوا اور اہلیہ کا رخصتی سے قبل ہی انتقال ہوگیا۔ 1953ء میں دوسرا نکاح کیا، جس سے 8 بیٹیاں اور 4 بیٹے ہوئے ، جن میں سے 3بیٹے اور4 بیٹیاں حافظِ قرآن ہیں۔

گھر کی گواہی

ڈاکٹر مولانا عبدالحلیم چشتی ؒ کے صاحب زادے، ڈاکٹر حافظ محمّد ثانی وفاقی اردو یونی ورسٹی شعبہ قرآن و سنہ کے صدر، سیرت چئیر کے سربراہ، معروف ماہرِ تعلیم اور اسلامی اسکالر ہیں۔ اُنھوں نے والد سے متعلق ان تاثرات کا اظہار کیا’’ہم نے بچپن ہی سے اپنے والد کو تحقیق و مطالعے میں مستغرق پایا۔ ہمارا گھر کسی کتب خانے یا علمی اکیڈمی کا منظر پیش کرتا تھا۔والد صاحب کا کُل وقتی مشغلہ کتاب دوستی اور کتاب بینی تھا۔ابّا میاں شام میں جب گھر واپس آتے، تو اُن کے ہاتھ میں کپڑے کا ایک تھیلا ہوتا، جس میں وہ اپنی کتابیں رکھتے اور ہر دوسرے، تیسرے دن اس تھیلے میں نئی کتابیں ہوتیں۔

کوئی بھی موضوع ہو، تفسیر، حدیث، اصولِ حدیث، سیرت طیبہ یا تاریخ، وہ ہمیشہ بنیادی مصادر کا مطالعہ فرماتے اور اپنی کتابوں میں بھی بنیادی مصادر کے حوالے دیتے۔ دینی تعلیم کے ساتھ عصری علوم کے خواہاں تھے اور اس اَمر کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کرتے رہے۔وہ ایک متقّی، خوددار، خلیق، ملنسار، متواضع عالمِ دین تھے۔‘‘ چشتی صاحب کے بھتیجے اور مولانا عبدالرشید نعمانی کے صاحب زادے، سابق ڈائریکٹر شیخ زید اسلامک سینٹر، ڈین سوشل سائنسز جامعہ کراچی، ڈاکٹر عبدالشہید نعمانی کا اُن سے متعلق کہنا ہے کہ’’چچا محترم کا ایک محقّق کی حیثیت سے عالمی تعارف ہے۔ اُنہوں نے حدیث اور تدوینِ فقہ کے حوالے سے علمی کام کیا۔ 

آپ کا مقالہ اسلامی تہذیب و ثقافت اور تاریخ پر مستند اور جامع معلومات پیش کرتا ہے اور بہترین حوالہ جاتی مآخذ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اُن کا مزاج تھا کہ کتاب کو تحقیق کے انداز میں پڑھا جائے اور تحقیقی انداز میں لکھا جائے یہی وجہ ہے کہ اُن کے کام کو عالمِ عرب میں نمایاں پذیرائی ملی اور آج مُلک، بیرونِ مُلک بالخصوص عالمِ عرب میں ان کا نام اور علمی و تحقیقی کام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ان کے تلامذہ بھی علمی و تحقیقی ذوق کے حامل اور اس شعبے میں گراں قدر خدمات انجام دے رہے ہیں۔‘‘

عاجزی و انکساری

اعلیٰ تعلیم یافتہ، مصنّف، مدرس، محقّق اور صاحبِ سلسلہ ہونے کے باوجود مولانا عبدالحلیم چشتیؒ کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو عجر و انکسار تھا۔ وہ کسی’’ ہٹو بچّو‘‘، تکلّف، تصنع، ظاہر داری کے قائل تھے اور نہ ہی کبھی بڑے عُہدوں، نمایاں نشستوں کی طرف دوڑے۔ اُن کے ہر ہر عمل سے اِخلاص اور للّٰہیت جھلکتے۔طلبہ کو اپنے جوتے اُٹھانے دیتے اور نہ سیدھے کرنے۔اُن کے ناظم آباد کے رہائشی شاگرد، رشید احمد نے لکھا ہے کہ’’ عرصہ پندرہ برس قبل کی بات ہے کہ جس مقام سے مَیں بس میں سوار ہوتا، اُس سے کچھ ہی دُور سے مولانا عبدالحلیم چشتی بھی سوار ہوتے۔ 

اُن کے ہاتھ میں کپڑے کا ایک تھیلا ہوا کرتا۔مَیں سوچتا تھا، یہ بزرگ پتا نہیں کون ہیں، جو روز مقرّرہ وقت پر بس میں سوار ہوتے ہیں۔بس میں عموماً سیٹ خالی نہیں ہوتی تھی، جس کی وجہ سے اُنھیں کھڑے ہوکر سفر کرنا پڑتا۔ ایک ہاتھ سے بس کا ڈنڈا اور دوسرے سے عصا اور تھیلا تھامے رکھتے۔ اگر کوئی اُن کے لیے سیٹ چھوڑتا، تو اپنا تھیلا اُسے پکڑا دیتے کہ یہ پکڑ لیں، مَیں آرام سے کھڑا ہو سکتا ہوں۔ جب ہمیں اُن کے بارے میں پتا چلا، تو ہماری کوشش ہوتی کہ اُن کے لیے سیٹ چھوڑ دیں، مگر وہ ہم طلبہ کو سختی سے کہتے ’’میرے لیے سیٹ مت چھوڑیں۔‘‘تاہم، دس سال قبل جامعۃ الرشید سے منسلک ہوئے، تو گھر اور کتب خانہ بھی ناظم آباد سے وہیں(احسن آباد) منتقل ہوگیا۔ جہاں سے ایک گاڑی اُنھیں بنوری ٹاؤن لے جاتی اور واپس لاتی۔

کتاب ہی زندگی تھی…!!

مولانا عبدالحلیم چشتی ؒنے زندگی کتابیں پڑھتے، پڑھاتے، لکھتے اور جمع کرتے گزار دی۔اُن کے گھر کے کئی کمرے کتابوں سے بَھرے ہوئے تھے۔ ذاتی کتب خانوں کے حوالے سے علمی حلقوں میں اُن کا ایک بڑا نام تھا۔ اُن کے کتب خانے میں عربی، فارسی، اُردو اور انگریزی زبان کی ہزاروں کتابیں موجود ہیں، جن میں ایک بڑی تعداد مختلف کتب کے قدیم نسخوں کی بھی ہے۔ نیز، کئی کتب کے قلمی نسخے بھی اُن کے کتب خانے کی زینت ہیں۔ جنھیں اُنہوں نے باوجود کئی اداروں اور صاحبِ ثروت افراد کی جانب سے خطیر رقم کی پیش کش کے باوجود، جو کروڑوں سے متجاوز تھی، اپنی کتابوں کا نادر ذخیرہ جو ان کی زندگی اور طویل تعلیمی و تحقیقی سفر کا عظیم سرمایہ تھا، چند ماہ قبل جامعہ علوم اسلامیہ کراچی کے لیے وقف کرکے اپنے لیے آخرت کا لافانی سرمایہ مہیا کرلیا، جو بلاشبہ انتہائی قابلِ قدر اقدام اور ایک روشن مثال ہے، چشتی صاحب آخر وقت تک مطالعے کے عادی رہے، نظر کم زور ہوگئی تھی، مگر مطالعہ پھر بھی جاری رہا۔

اُن کے ایک طالبِ علم، مولانا عبدالمنعم نے بتایا’’ ہر وقت کتاب پر جُھکے نظر آتے، بینائی کی کم زوری کو بھی خاطر میں نہ لاتے۔کچھ نہ بن پڑتا، تو عدسے کی مدد سے کتابوں کا مطالعہ فرماتے۔عصری تعلیم کے حصول پر بہت زور دیا کرتے اور طلبہ کی اس جانب رہنمائی بھی کرتے۔‘‘ڈاکٹر سیّد عزیز الرحمٰن کے بقول’’ چشتی صاحب کا پہلا حوالہ کتاب اور دوسرا حوالہ اہلِ کتاب تھے۔ ان کی نسبت سے باقی تمام حوالے ثانوی ہیں۔ مذہبی بھی، مسلکی بھی، ذوقی بھی اور فروعی بھی۔ ‘‘اُن کے ذوقِ مطالعہ کی کیا کیفیت تھی؟ اس کا اندازہ اُن کے ایک شاگرد، حمزہ سیّد کے ان الفاظ سے لگایا جاسکتا ہے’’ ایک بار باتوں باتوں میں مولانا ابوالکلام آزاد کا ذکر ہوا، تو مَیں نے کہا کہ’’ اُن کا مولانا عبدالماجد دریا آبادی سے ایک مکالمہ بڑا دِل چسپ ہے؟‘‘ فرمانے لگے’’ کس عنوان سے؟‘‘میں نے کہا’’ مولانا دریا آبادی نے ایک جگہ’’ حظ وکرب‘‘ کا لفظ استعمال کیا تھا، جس سے مولانا آزاد کو اختلاف تھا۔ 

اُن کے مطابق’’ حظ‘‘ لذّت کے معنی میں درست نہیں ہے۔ اس پر دونوں طرف سے بحث کا سلسلہ شروع ہوا۔‘‘ چشتی صاحب نے کہا’’ یہ کس کتاب میں ہے، مجھے لاکر دیں۔‘‘ مَیں نے بتایا’’ مدرسے کی لائبریری میں ہے‘‘، تو بولے’’ جاؤ لے آو، پڑھ کر صبح دے دوں گا۔‘‘ اور صبح واپس بھی کردی۔ایک اور طالبِ علم، مولانا سلمان ندیم نے بتایا’’ایک روز میرے ہاتھ میں ایک کتاب دیکھی، تو مطالعے کے لیے لے لی اور کہا ’’ فلاں دن درس گاہ میں آکر مجھ سے لے جانا۔‘‘ تاہم، میں اُس روز وہاں جانا بھول گیا۔اگلے دن ایک ساتھی نے بتایا کہ’’ چشتی صاحب تمھیں تلاش کر رہے ہیں۔‘‘ مَیں یہ سُنتے ہی اُن کی طرف چل پڑا، تو وہ راستے ہی میں مل گئے اور وہ کتاب اُن کے ہاتھ میں تھی۔فرمایا’’ مَیں تو آپ کا انتظار ہی کرتا رہا۔‘‘

تازہ ترین