امریکہ میں ڈیمو کریٹک پارٹی کے امیدوار جو بائیڈن کے صدر منتخب ہونے سے عالمی سیاست پر عموماً اور پاکستان کی سیاست پر خصوصاً کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ گزشتہ ایک صدی کی امریکی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو اس سوال کا درست جواب حاصل کرنا زیادہ مشکل نہیں ہے لیکن ہر مرتبہ نئے امریکی صدر کے انتخاب کے موقع پر دنیا اسی سوال پر اُلجھ جاتی ہے۔
اس کا سبب یہ ہے کہ نئے امریکی صدر کی پارٹی وابستگی، سیاسی پس منظر اور اس کی سیاسی سوچ کے امریکا کی داخلی اور خارجی پالیسیوں پر کچھ نہ کچھ ممکنہ اثرات کا جائزہ لیا جاتا ہے اور یہ دیکھا جاتا ہے کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ نئی انتظامیہ کے ساتھ کس طرح چلتی ہے۔ خاص طور پر جب ڈیمو کریٹک پارٹی اقتدار میں آتی ہے تو عام طور پر اس سے لوگوں کی توقعات بڑھ جاتی ہیں کہ وہ دنیا خاص طور پر تیسری دنیا میں آمرانہ قوتوں کی بجائے جمہوری قوتوں کی حمایت کرے گی۔
علاقائی اور داخلی تنازعات میں مظلوم گروہوں کا ساتھ دے گی کیونکہ ڈیموکریٹک پارٹی کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ ترقی پسندانہ اور بائیں بازو کے خیالات کی حامل ہے جبکہ ری پبلکن پارٹی قدامت پرست ہے۔
اس تناظر میں پاکستان کی حقیقی، جمہوری اور سیاسی قوتیں بھی ڈیمو کریٹک پارٹی سے بہت اُمیدیں وابستہ کر لیتی ہیں لیکن پاکستان میں زیادہ تر ان امیدوں اور توقعات کے برعکس ہوا بلکہ امریکی ڈیموکریٹک صدور کے ادوار میں پاکستان میں ایسے بڑے سانحات اور واقعات رونما ہوئے، جنہوں نے پاکستان میں سیاسی اور جمہوری قوتوں کو پیچھے دھکیل دیا اور جمہوری جدوجہد کو بہت بڑا نقصان پہنچا۔ 4 اپریل 1979ء کو جب منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی تو امریکا میں ڈیمو کریٹک پارٹی کے صدر جمی کارٹر (1977ء تا 1981ء ) برسر اقتدار تھے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں جمی کارٹر صدر تھے۔ جنرل ضیاء الحق کے بعد پاکستان میں 1988ء سے 1999ء تک ایک جمہوری وقفہ میسر آیا۔
امریکی ڈیمو کریٹک پارٹی کے ایک اور صدر بل کلنٹن دو مرتبہ منتخب ہوئے اور وہ 1993ء سے 2001ء تک اقتدار میں رہے۔ اس عرصے میں کوئی بھی جمہوری حکومت اپنی آئینی مدت مکمل نہ کر سکی۔ تین جمہوری حکومتیں صدر پاکستان کے حکم پر ختم کی گئیں اور ایک دوسرے فوجی آمر پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ ڈیمو کریٹک پارٹی کے ایک اور صدر باراک اوباما ( 2009 ء تا 2017ء ) کے دور میں پاکستان میں سپریم کورٹ کے فیصلے سے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نہ صرف اپنے عہدے سے برطرف ہوئے بلکہ وہ پرائم منسٹر ہاؤس سے جیل منتقل ہو گئے۔
اسی طرح پاکستان کے پہلے فوجی آمر جنرل ایوب خان کو بھی امریکی ڈیمو کریٹک پارٹی کے دو صدور جان ایف کینیڈی (1961ء تا 1963ء ) اور (لنڈن بی جانسن) کی مکمل حمایت حاصل رہی اور پاکستان کو امریکا کے عالمی فوجی اتحادوں سیٹو اور سینٹو کا سب سے اہم رکن بنانے پر ایوب خان ان امریکی ڈیمو کریٹ صدور کی آنکھوں کا تارا تھے۔ البتہ امریکی ری پبلکن صدر جارج بش سینئر (1989ء تا 1993ء)کے دور میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت ختم کر دی گئی اور ایک اور ری پبلکن صدر جارج بش سینئر کے بیٹے جارج ڈبلیو بش جونیئر ( 2001 ء تا 2009ء ) کے دور میں محترمہ بے نظیر بھٹو کا قتل ہوا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ ہونے والے ان افسوس ناک اور اندوہناک واقعات کے تناظر میں ہو سکتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت کو امریکی ری پبلکن پارٹی سے کوئی اچھی توقعات نہ ہوں لیکن ڈیمو کریٹک پارٹی کے صدور کے ادوار میں جمہوری اور سیاسی قوتوں کو زیادہ نقصان ہوا۔
ہمیں اس حقیقت کا بار بار ادراک کرنا چاہئے کہ امریکا ایک سپر پاور ہے اور عالمی سامراجی طاقتوں کا سرخیل۔ اس کی اسٹیبلشمنٹ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی محافظ بھی ہے ۔
یہ ٹھیک ہے کہ ری پبلکن پارٹی اور ڈیمو کریٹک پارٹی بالترتیب دائیں اور بائیں بازو کی جماعتیں ہیں۔ اول الذکر امریکی اسٹیبلشمنٹ کے زیادہ قریب سمجھی جاتی ہے اور موخر الذکر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کی بعض سخت گیر پالیسیوں کی نقاد ہے لیکن کوئی بھی سیاسی جماعت خصوصاً ڈیموکریٹک پارٹی امریکا کی خارجہ پالیسی پر اس طرح اثر انداز نہیں ہو سکتی جس طرح تیسری دنیا میں بعض ترقی پسند، لبرل اور بائیں بازو کی سیاسی جماعتیں اثر انداز ہونے کی کامیاب یا ناکام کوشش کرتی ہیں۔
امریکا کی داخلی پالیسیوں پر البتہ سیاسی جماعتیں زیادہ اثر انداز ہو سکتی ہیں مثلاً امیگریشن پالیسی، ہیلتھ کیئر پالیسی، سبسڈیز وغیرہ پر ڈیمو کریٹک پارٹی کا رویہ ری پبلکن پارٹی سے قدرے مختلف ہے اور امریکا کی اسٹیبلشمنٹ داخلی پالیسیوں کے حوالے سے کافی لچکدار رویے کی حامل ہے۔ جو بائیڈن کے بارے میں یہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہ ٹرمپ کے بعض فیصلوں کو بدل سکتے ہیں۔ مثلاً وہ پیرس کلائمیٹ ایگریمنٹ کا دوبارہ حصہ بن سکتے ہیں۔ ایران سے کشیدگی کم کر سکتے ہیں۔
سعودی قیادت میں یمن کے خلاف جنگ میں فوجی اتحاد کی حمایت کم کر سکتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ لیکن امریکی تاریخ پر نظر رکھنے والے یہ سمجھ سکتے ہیں کہ ڈیمو کریٹک پارٹی کے تبدیل شدہ یہ فیصلے حالات کے مطابق خود امریکی اسٹیبلشمنٹ کے حق میں جا سکتے ہیں۔ جو بائیڈن چین کی پیش قدمی کو روکنے کی سابقہ امریکی پالیسی کے حامی ہیں اور وہ اسے تبدیل بھی نہیں کر سکتے۔ چین کو روکنے (Contain ) کی اسی پالیسی کے تحت پاکستان کو ڈیل کیا جائے گا۔
البتہ نئی امریکی انتظامیہ کے آنے سے تیسری دنیا کے ملکوں کی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور سول اور ملٹری بیورو کریٹس کو امریکی اسٹیبلشمنٹ میں اپنا اثرو رسوخ برقرار رکھنے، حاصل کرنے یا بڑھانے کیلئے ازسر نو لابنگ کرنا پڑے گی۔ پاکستان جیسے ملکوں کیلئے نئی امریکی انتظامیہ کے آنے سے صرف یہی اثر پڑتا ہے کہ لابنگ کیلئے نئی منصوبہ بندی کرنا پڑتی ہے اور کچھ کیلئے نئے امکانات بھی ہوتے ہیں۔