• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک الائنس کے رہنماوٗں کے بیانات کو بنیاد بنا کر بعض حلقے یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ پی ڈی ایم اختلافات کا شکار ہو رہی ہے یا پی ڈی ایم میں شامل سیاسی جماعتوں کے راستے جدا ہو رہے ہیں۔ اگر یہ تاثر حقیقت میں تبدیل ہوتا ہے، جس کیلئے غیرمعمولی کوششیں کی جا رہی ہیں تو یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سیاسی المیہ ہوگا۔ اِس سے نہ صرف پی ڈی ایم میں شامل سیاسی جماعتوں کو ناقابلِ تلافی نقصان ہوگا بلکہ پاکستان میں مزاحمتی سیاست دم توڑ دے گی اور اُس کے دوبارہ پنپنے میں بہت زیادہ وقت درکار ہوگا۔ لہٰذا پی ڈی ایم کی تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت کو انتہائی تدبر سے کام لینا ہوگا۔ پاکستان جیسے ملکوں میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں سیاست کے معروضی حقائق کو اُس طرح بیان نہیں کیا جاتا ہے جس طرح وہ ہیں۔ جرمن فلسفی اور مورخ اسپینگلر نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ’’تم جب بھی مجھ سے بات کرو تو تمہیں خود کو معلوم ہونا چاہئے کہ تمہاری بات کا مطلب کیا ہے اور تم جو اصطلاحیں استعمال کر رہے ہو، تمہیں اُنکی حقیقی تعریف کے بارے میں خود کسی الجھن کا شکار نہیں ہونا چاہئے‘‘۔ پاکستان میں جب بھی ہمارے بعض دانشور اور تجزیہ کار کوئی بات کرتے ہیں، وہ کسی خوف، دبائو یا مخصوص ذاتی مفاد کی وجہ سے اُنکے اپنے فکری تضادات اور الجھنوں کا شکار ہوتے ہیں۔ آج کل وہ یہ دلائل دینے میں لگے ہوئے ہیں کہ پاکستان کے کسی ادارے کا سیاست میں کوئی عمل دخل نہیں ہے لیکن وہ پی ڈی ایم کی مختلف سیاسی جماعتوں کے رابطوں، امکانی ڈیل اور پی ڈی ایم میں توڑ پھوڑ کی پیش گوئیاں کر رہے ہیں۔ بقول کسے

وہ راز انا الحق خود ہی کھول رہا ہے

منصور کے پردے میں خدا بول رہا ہے

اب وقت آ گیا ہے کہ کھل کر بات ہونی چاہئے اور ہر بات کا مطلب اور اِس میں استعمال ہونے والی اصطلاحوں کی واضح تعریف ہونی چاہئے۔ حقیقت یہ ہے کہ پی ڈی ایم ایک ایسا سیاسی اتحاد ہے جس میں پاکستان کی وفاق پرست، لبرل اور مذہبی سیاسی جماعتیں شامل ہیں جو چاروں صوبوں اور قبائلی علاقہ جات میں بہت زیادہ موثر ہیں۔ اُس کے مقابلے میں سیاسی محاذ پر ایک طرف پاکستان تحریک انصاف ہے، جس کی حکومت کی کارکردگی کے بارے میں کوئی مطمئن نہیں ہے۔ مہنگائی اور بےروزگاری نے عوام کو مایوسی اور بےچینی کی ایسی دلدل میں دھکیل دیا ہے جہاں سے کوئی سیاسی بھونچال ہی اُنہیں نکال سکتا ہے۔ دوسری طرف انتہا پسند مذہبی گروہ بھی ہیں۔ پی ڈی ایم سے نہ صرف پی ٹی آئی کی حکومت پریشان ہے، سیاسی محاذ پر اُسکے پاس آپشنز بہت کم ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر پی ڈی ایم کی قیادت صبر اور تدبر سے کام لے تو پاکستان کی تاریخ میں اسے جو سیاسی حالات میسر ہیں، وہ ایم آر ڈی اور اے آر ڈی کو بھی میسر نہیں تھے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پی ڈی ایم کی سیاسی جماعتیں مختلف نظریات اور مختلف ایجنڈے رکھتی ہیں۔ تمام سیاسی اتحاد ایسے ہی ہوتے ہیں۔ اُنکی قیادت کو بعض مجبوریاں بھی ہیں۔ خاص طور پر نیب کے مقدمات ہیں۔ آصف علی زرداری کے وارنٹ گرفتاری موجود ہیں لیکن گرفتاری نہیں ہوئی اور تلوار لٹک رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن کو بھی نیب کے مقدمات کا سامنا ہے۔ پی ڈی ایم کی دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین کی کوئی نہ کوئی کمزوری یا مجبوری ہو گی۔ اِس اتحاد کو سینیٹ کے آئندہ الیکشن سے قبل توڑنے یا کمزور کرنے کیلئے ہر حربہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اِس وقت پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے ایک انٹرویو کو بنیاد پر پی ڈی ایم میں دراڑیں ڈالنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، جس میں بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ انہیں میاں نواز شریف کے بیان سے دھچکا لگا ہے۔ میاں نواز شریف کے بیان کو وزیراعظم عمران خان اور ان کی ٹیم کے ارکان فوج کے خلاف محاذ سے تعبیر کر رہے ہیں۔ پی ڈی ایم کو حکومتی بیانیے میں نہیں اُلجھنا چاہئے۔ میاں نواز شریف کا بیان پی ڈی ایم کے بیانیے سے متصادم نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کو بہت سی مشکلات کا سامنا ہے۔ پی ڈی ایم کے کمزور ہونے سے تمام رکن سیاسی جماعتوں کو نقصان ہوگا لیکن سب سے زیادہ نقصان پیپلز پارٹی کو ہوگا لہٰذا پیپلز پارٹی کی قیادت کو استقامت سے صورت حال کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ پی ڈیم ایم پاکستان کی تاریخ کے اِس مرحلے پر اہم سیاسی اتحاد ہے۔

فٹ نوٹ: امریکی انتخابات میں جو بائیڈن نے بڑے مارجن سے ڈونلڈ ٹرمپ کو ہرا دیا ہے، اِس طرح پہلی دفع ایک Immigrantسیاہ فام خاتون امریکی انتخابات میں نائب صدر بھی منتخب ہوئی ہیں۔ یہ ایک بڑی تبدیلی ہے۔ یوں تو دنیا میں ان انتخابات کے نتیجے میں کوئی بھی بڑی تبدیلی نہ ہوگی مگر پھر بھی رویوں اور Approachمیں فرق آئے گا اور دنیا ایک تنائو سے ضرور نکل جائے گی۔

تازہ ترین