ممتاز حسن کی یاداشتیں
ممتاز حسن 1974-1907ء علامہ اقبال کے دوست، ہم عصر، مداح، مصنف اور عقیدت مندتھے وہ قیام پاکستان کے بعد بہت بڑے اور اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ وہ علامہ اقبال کی محفلوں میں بھی شریک ہوتے رہے۔ روزگار فقیر کے مصنف فقیر سید وحید الدین نے ممتاز حسن کے حوالے سے کئی دلچسپ واقعات لکھے ہیں۔ جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔
کشمیر کے متعلق پیش گوئی:
جناب ممتاز حسن فرماتے ہیںکہ ایک روز علامہ کی صحبت میں کشمیر کی سیاسی تحریک پرگفتگو ہورہی تھی۔ علامہ موصوف فرمانے لگے کہ:
’’میں نے کشمیر کے متعلق جو نظم ’’ساقی نامہ‘‘ نشان باغ میں بیٹھ کر لکھی تھی، اس میں ریشم ساز کارخانوں اور کاریگروں کا ذکر بھی شامل تھا۔ عجیب بات یہ ہے کہ بعد میں کشمیر کی سیاسی تحریک وجود میں آئی تو اس کی ابتداء ایک ریشم کے کارخانے میں کاری گروں کی بغاوت سے ہوئی۔‘‘
ممتاز حسن کہتے ہیں کہ علامہ کی شہرۂ آفاق تصنیف ’’پیام مشرق‘‘ (جو 1923ء میں شائع ہوئی تھی) کا نسخہ، جس پر علامہ کے دستخط بھی ثبت ہیں، میرے پاس موجود تھا۔ میں نے ’’ساقی نامہ‘‘ کو غائرنظر سے دیکھا تو اس کے مندرجہ ذیل تین اشعار نے میرے دل میں علامہ کے اس ارشاد کی اہمیت میں اور اضافہ کرایا:
کشمیر کہ بابندگی خود گرفتہ
بُتے می تراشد ز سنگ مزارے
بریشم قبا خواجہ از محنت او
نصیب تلش جامہ تار تارے
ازاں مے فشاں قطرۂ بر کشمیری
کہ خاکسترش آفریند شرارے!
(پیام مشرق)
چنانچہ ممتاز حسن جب چندسال قبل آزاد کشمیر تشریف لے گئے تو انہوں نے مظفرآباد میں ایک معزز کشمیرڈاکٹر عبدالواحد سے سوال کیا کہ کیا وہ تحریک کشمیر کے بالکل ابتدائی وجود اور اسباب پر روشنی ڈال سکتے ہیں؟ اس پرانہوں نے ایک مفصل مضمون قلم بند کر کے ممتاز صاحب کو دیا مضمون کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’’پیام مشرق‘‘ کی اشاعت کے ایک سال بعد 1924ء میں اس تحریک کا آغاز ریشم کے کارخانے کے مزدوروں کی ہڑتال اور بغاوت سے ہوا۔ حکومت نے کرنے والے مزدوروں اور شہریوں پر گولی چلوا دی، جس کے نتیجے میں بہت سے لوگ ہلاک اورزخمی ہوگئے حالات پولیس کے قابو سے باہر ہوگئے تو فوج طلب کر لی گئی، جس نے کشمیری عوام پر خوب تشدد کیا۔ انجام کار یہ تحریک دبنے کی بجائے پھیلتی گئی اور کشمیری عوام میں خودداری کا خوابیدہ احساس بیدار ہوگیا۔ اور یہی وہ جذبہ تھا جو وقت گزرنے کے ساتھ مضبوط اور پختہ ہوتا چلا گیا۔ ’’پیام مشرق‘‘ میں علامہ اقبال کے دو اشعار جوانہوںڈ نے 1924ء سے قبل کہے تھے، ان کے بارے میں اگریہ کہا جائے تو کوئی مبالغہ آمیز بات نہ ہوگی کہ کشمیرکے مستقبل کے لیے یہ اشعار پیش گوئی ثابت ہوئے جیسے آنے والے واقعات کی پرچھائیاں برسوں پہلے شاعر مشرق کے ذہن و فکر پرمنعکس ہو چکی تھیں
روشنی اورتاریکی:
ایک روزممتاز حسن علامہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو وہاں ایک شخص کو بیٹھے دیکھا۔ شکل صورت سے سادُھو معلوم ہوتا تھا، مگر غیر معمولی قسم کا۔ منڈا ہوا سر، ڈاڑھی مونچھیں صاف، گیروا لباس، مگر بہت قیمتی کپڑے کا۔ علامہ کے ساتھ بڑی گرم جوشی کے ساتھ گفتگو ہورہی تھی۔ یہ ملاقاتی بار بار علامہ کو ’’کوی جی‘‘ کہہ کر مخاطب کرتا اور دوران گفتگو کسی راجہ مہاراجہ کا ذکر بھی کر دیتا۔ جب یہ شخص اُٹھ کر چند منٹ کے لیے باہر گیا تو ممتاز حسن نے دریافت کیا: ’’یہ کون ہیں؟‘‘ علامہ نے فرمایا: ’’یہ میرے پرانے دوست ہیں ہر سال مجھ سے آکر ملتے ہیں اورمیرے پاس قیام بھی کرتے ہیں بڑے بڑے مہاراجے ان کے جیلوں میں شامل ہیں۔‘‘ ممتاز صاحب نے سوامی جی کا نام دریافت کیا تو علامہ نے فرمایا: ’’نام تو مجھے یاد نہیں۔ اتنے میں سوامی جی واپس آکر بیٹھ گئے اور فلسفیانہ مسائل پر بحث چھیڑ دی۔ گفتگو کے دورران میں انہوں نے علامہ سے ایک سوال یہ پوچھا: ’’کوی جی! کیا روشنی اور اندھیرا (Light and Darkness) اکٹھے ہوسکتے ہیں؟‘‘۔
علامہ نے کہا ’’ہاں!‘‘
سوامی جی حیرت سے بولے: ’’وہ کیسے؟‘‘
علامہ نے فرمایا: "In time" (وقت میں)۔
کائنات کی ساخت:
ایک روزآئن اسٹائن کے نظریۂ اضافیت کا ذکر آیا۔ علامہ نے اس موقع پر فرمایا: ’’کائنات کی شکل و صورت کا مسئلہ پرانے مسلمان ریاضی دانوںکے بھی پیش نظر تھا اور انہوں نے اس مضمون پر بڑا غور و خوض کیا۔‘‘ علامہ نے ایک ہسپانوی مسلمان ریاضی دان ابوالمعالی کا تذکر کیا، جس کی تحقیقات آئن اسٹائن کی تحقیق سے مشابہ تھیں۔ علامہ نے فرمایا کہ آئن اسٹائن کا خیال ہے کہ کائنات کی ساخت کم و بیش مدوّر رہے۔ ہمار ے مسلمان ریاضی دان کی تحقیق یہ تھی کہ کائنات مخروطی شکل کی ہے۔
آئن اسٹائن کا نظریۂ زمان یہ ہے کہ وقت کائنات کی چوتھی’’بُعد‘‘ ہے۔ علامہ کو اس سے اتفاق نہ تھا۔ فرمایا: ’’یورپ کے ریاضی دانوں میں جس شخص کے نظریات میرے نزدیک سب سے زیادہ وقیع ہیں وہ دائل ہے‘‘۔