انسان اشرف المخلوقات ہونے کی بناء پر ہمیشہ سرکش رہا ہے۔ حضرت آدمؑ کی تخلیق کے ساتھ ہی سزا و جزا بھی مقرر کردی گئی ہے۔ نیک و صالح لوگوں کے لئے دنیا و آخرت میں جنت کی نوید سنائی گئی ہے۔ مگر وہ لوگ جو قدرت کے قانون اور سماجی اقدار کے قانون سے انحراف کرتے ہیں، ان کے لئے دردناک عذاب بھی ہے۔ سزا و جزا کا یہ قانون ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا۔ اس امرکے باوجود انسان اپنی انا، انتقام، جوش و جذبات اور غصے و اشتعال کی کیفیت میں ایسا عمل کر گزرتا ہے کہ جس کی موت کے سوا دوسری کوئی سزا ہو ہی نہیں سکتی۔
دنیا میں موت کی سزا دینے کے مختلف طریقے اور انداز رہے ہیں۔ زمانہ قدیم میں سزا وار شخص کو تیل کے گرم کڑھائو میں زندہ ڈال دیا جاتا تھا۔ کہیں زندہ درگورکردیا جاتا ہے، کہیں اس کے اعضاء یکے بعد دیگرے کاٹ دئیے جاتے، تو کہیں اسے درندوں کی خوراک بننے کے لئے پھینک دیا جاتا تھا۔ یہ ہی نہیں مجرم کی کھال تک اتارلی جاتی تھی، کہیں اس کا سر رسی سے لپیٹ کر پھاڑ دیا جاتا تھا، پھر جیسے جیسے ادوار بدلے، قانون بنے، ویسےویسے سزا کو انتہائی آسان بنادیا گیا۔ اب دنیا میں کہیں الیکٹرک چیئر ہیں جن میںبجلی کے جھٹکے دے کو موت کے گھاٹ اتارا جاتا ہے توکہیںگیس چیمبرمیں بند کرکےزہریلی گیس چھوڑی جاتی ہے، جس سے مجرم چند سیکنڈ میں قیدحیات سے آزاد ہوجاتا ہے۔
اس کے علاوہ فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑا کرکے اس پر بندوق سے فائر کیے جاتے ہیں یا پھر زہر کا انجکشن لگادیا جاتا ہے۔ عرب ممالک میں تو سزائےموت کے مجرم کی گردن تلوار کے ایک ہی وار سے تن سے جدا کردی جاتی ہے۔ اس سزا کی واضح مثال سندھ کے حکم راں میاں سرفراز کلہوڑو کی ہے۔ اس کے علاوہ حضرت صوفی شاہ عنایت، اوردادو کے مخدوم بلاول کو کولہو میں ڈالا گیا۔ مگرسزائے موت میں پھانسی کی سزا کی شرح نمایاں طور کم رہی ہے۔
1894ء کے دوران صدیوںقدیم شہر حیدرآباد کے قلب میں تعمیر ہونے والی سینٹرل جیل حیدرآباد کا ایک احاطہ مشہور صوفی بزرگ حضرت منصور حلاج کے نام سے منسوب ہے اور اسے ’’منصور گھاٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہاں سزائے موت کے مجرموں کو پھانسی دی جاتی ہے۔ برصغیر میں انگریز دور حکومت میں پہلی بار باقاعدہ ’’پریذنر ایکٹ‘‘ تشکیل دیا گیا، اسی ایکٹ کے تحت حیدرآباد کی یہ جیل تعمیر ہوئی تھی۔ ایکٹ کے مطابق ملزمان یا سزا یافتہ قیدیوں کو ان کے جرم کی مناسبت سے چھوٹی یا بڑی جیل میں رکھا جاتا تھا۔ بڑی جیلیں شہر کی سطح پر تھیں۔
جیل میں قیدیوں کو درپیش مسائل کے حل اور انصاف کے تحت سزاا دلانے کے لئے معززین شہر و افسران پر مشتمل ایک ’’جیل کمیٹی‘‘ بھی رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کرتی تھی۔ سر چارلس نیپیئر کی نگرانی میں سینٹرل جیل کا انتظام ڈپٹی مجسٹریٹ کے سپرد ہوتا تھا۔ حیدرآباد جیل کے افتتاح کے موقع پر برصغیر میں مختلف اداروں کے اعلیٰ افسران و معززین کو مدعو کیا گیا۔ 118؍ایکڑ رقبے پر محیط سینٹرل جیل حیدرآباد بلند فصیل کے حصار میں واقع ہے۔ جیل اور جیل کے باہر اطراف پر نگاہ رکھنے کے لئے فصیلوں سے ملحقہ 4بلند برجیاں ہیں۔
منصور گھاٹ اسی جیل کی مرکزی عمارت کے داخلی دروازے کے بائیں جانب ہے، جہاں انگریزوں کے دور سے ہی تختہ دار نصب ہے۔ اس جیل کے پہلے سپرنٹنڈنٹ آرجی ٹاپو کو یکم دسمبر 1933ء کو تعینات کیا گیا۔ اس طرح اس جیل کے پہلے ڈپٹی سپرنٹتڈنٹ برطانوی فوج کے اعلیٰ افسر ڈبلیو لانگ مین رہے۔
یہ وہ دور تھا جب سندھ کےتالپور حکم رانوں کو میانی کے جنگی میدان میں شکست ہوچکی تھی اور برطانوی پرچم یونین جیک حیدرآباد سمیت برصغیر کے کونے، کونے میں لہرا رہا تھا۔ برطانوی حکم راں سندھ سمیت برصغیر کے وسائل اور معدنیات کو بے دریغ استعمال کررہے تھے۔ ذاتی مفادات کے حصول کے لئے انہوں نے ناصرف تجارتی کوٹھیاں قائم کیں، بلکہ اپنے دست راست بننے والوں کو خصوصی مراعات، سہولتیں، القابات و خطابات سے نوازا، مگر دوسری جانب حیدرآباد سمیت سندھ میں انگریز تسلط کے خلاف جابجا نفرت کی چنگاری نصف صدی گزرنے کے بعد شعلہ بن چکی تھی جس کے نتیجے میں انگریزوں کے خلاف عوام نے اعلان بغاوت کردیا۔ حر جماعت کے روحانی پیشوا پیر صبغت اللہ راشدی کو اسی بغاوت کے جرم میں گرفتار کیاگیا، جس کی بناء پر حروں کی کثیر تعداد نے سینٹرل جیل کا گھیرائو کرلیا تاکہ وہ اپنے روحانی پیشوا کو انگریزوں کی قید سے آزاد کراسکیں۔
کئی دن تک جیل کا محاصرہ جاری رہا، لیکن بالآخر 20؍مارچ 1943ء کو انگریزوں کے بنائے ہوئے خصوصی قانون ’’حر ایکٹ‘‘ کے تحت رات کی تاریکی میں سینٹرل جیل حیدرآباد کے مشہور منصور گھاٹ کے تختہ دار پر پھانسی دے دی گئی۔ بعض مورخین کا کہنا ہے کہ ’’حروں کے ردعمل سے بچنے کے لئے پیر پگارا کو پھانسی دئیے جانے کے بعدان کی لاش کی اسی منصور گھاٹ کے احاطے میں تدفین کردی گئی۔‘‘ ایک سابق جیل سپرنٹنڈنٹ حیدرآباد کے مطابق ’’پیر پگارا کی پھانسی سے متعلق تاریخی دستاویزات پاکستان مسلم لیگ (ف) کے سید مظفر علی شاہ نے اس وقت منگوائی تھیں جب وہ سندھ میں وزارت اعلیٰ کی کرسی پر براجمان تھے۔ انہیں متعدد بار تحریری طور پر اس تاریخی دستاویزات کی واپسی کے لئے جیل انتظامیہ کی جانب سے مکتوب ارسال کئے لیکن تاحال وہ تاریخی دستاویزات حکومت سندھ نے سینٹرل جیل حیدرآباد کو واپس نہیں کیں، جس کی بناء پر پیر پگارا کی پھانسی اور ان سے جڑی تاریخ گم ہوگئی ہے۔
اس لئے وزارت داخلہ اور موجودہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ اس تاریخی دستاویزات کے حصول کو یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کریں‘‘۔ اسی طرح دوسری اہم ترین پھانسی سندھ کا اہم کردار، بھگت سنگھ ہیمو کالانی کا ہے، جسے شاید تاریخ نے فراموش کردیا۔ انگریز دور حکومت میں ایک فوجی ٹرک سکھر جیل کے سامنے رکتا ہے۔ یہ فوجی ٹرک حیدرآباد کی سینٹرل جیل سے آیا ہے۔ اس ٹرک میں ایک نوجوان کی نعش برآمد ہوئی۔
یہ ہیمن داس کالانی المعروف ہیمو کالانی تھا۔ اس ٹرک کے ساتھ سرخ ٹوپیاں پہنے فوجی اور لوگوں کی کثیر تعداد موجودتھی۔ 1981ء کے دوران مٹھومل ٹیک چندانی، ’’دیر ماتا کا بہادر بیٹا‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے ایک مضمون میں کہتے ہیں کہ ’’اسکول کے طلباء کی تنظیم سورج سہنا میں 19سال سے 25سال کے طلباء شامل تھے۔اس تنظیم کا مقصد نوجوانوں میں دیش بھگتی کے جذبے کو بیدار کرنا تھا، اس تنظیم میں ہیمو کالانی انتہائی سرگرم تھے۔
معروف ادیب پروفیسر لائق زرداری لکھتے ہیں کہ جب جدوجہد آزادی شروع ہوئی تو اس کا اثر سندھ کے بڑے شہروں کراچی، شکار پور، جیکب آباد اور حیدرآباد میں بھی محسوس کیا گیا۔ اس دوران کراچی میں جنرل کمانڈنگ آفیسر و دیگر افسران پر حملے اور پکا قلعہ پر قبضے کی منصوبہ بندی کرنے پر 14؍افراد کو گرفتار کرکے پھانسی دی گئی، 3کو قتل اور 4کو توپ کے دہانے پر باندھ کر اڑایا گیا۔ ان ’’مجرمان‘‘ کا منصوبہ تھا کہ وہ پکا قلعہ پر قبضے کے بعد دہلی کے لال قلعے کی طرح باغیوں کا محاذ بنالیں اور اس کے بعد سندھ کے بڑے شہروں میں انگریزوں کے خلاف بغاوت کی جائے۔
ہیمو کالانی بھی ان گرفتار ہونے والوں میں شامل تھا۔ اس کا مقدمہ مارشل لا ٹریبونل حیدرآباد ہیڈ کوارٹر منتقل کیا گیا۔ چنانچہ مارشل لا ایڈمنسٹریٹر میجر جنرل رچرڈسن نے ہیموکالانی کی سزا، عمر قید سے سزائے موت میں تبدیل کردی، پھانسی سے قبل ہیمو کالانی سے جب اس کی آخری خواہش معلوم کی گئی تو اس نے کہا کہ ’’میں نعرے لگاتے ہوئے پھانسی کے تختے پر جائوں گا اور آپ سرکاری اہل کار ان نعروں کا جواب دیں گے‘‘۔
سینٹرل جیل حیدرآباد کا منصور گھاٹ آج بھی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سات افراد کی پھانسی پر شاید خون کے آنسو بہاتا ہوگا۔ان قیدیوں کے سربراہ سنگت سبزل خان تھے۔ ان کا تعلق ضلع خضدار کی تحصیل زہری سے تھا، پیشے کے حوالے سے زمین دار تھے انہیں 14ماہ تک قلی کیمپ اور سکھر جیل میں قید تنہائی میں رکھا گیا۔ موت سے قریب سے قریب تر ہونے کے باوجود ان کے اعصاب کم زور نہ ہوئے، ان کے ساتھی سنگت بنے خان کو سکھر جیل جب کہ سنگت بہاول خان اور سنگت مستی خان کو سینٹرل جیل حیدرآباد کے منصور گھاٹ پر پھانسی دی گئی۔ منصور گھاٹ پر قیام پاکستان کے بعد یوں تو 32سے زائد سزائے موت کے قیدیوں کو پھانسی دی جاچکی ہے۔
ان میں 5؍جنوری 1992ء کو سندھ کے ایک گائوں ٹنڈو بہاول کے مشہور کیس میں ملوث ایک حاضر سروس میجر کی پھانسی بھی شامل ہے۔ میجر ارشد جمیل پر الزام تھا کہ اس نے 9کسانوں کو گاڑی میں بٹھا کر دریائے سندھ کے کنارے لے جاکر گولیاں مارکر ہلاک کردیا تھا۔ ابتدا میں ان کسانوں کو میڈیا کے ذریعے دشمن کا ایجنٹ بتایا گیا تھا، لیکن واقعہ کی تحقیقات پر انکشاف ہوا کہ یہ قتل زرعی زمین کا شاخسانہ تھی۔ چناں چہ 24؍جولائی 1992ء کو ارشد جمیل کا کورٹ مارشل کیا اوراسے سزائے موت جب کہ دیگر 13؍اہل کاروں کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ میجر ارشدکی جانب سے رحم کی اپیل کی گئی جسےاس وقت کے صدر صدر فاروق لغاری نے 31؍جولائی 1995ء کو مسترد کرکے اس سزا پر عمل درآمد روک دیا۔
میجر ارشد جمیل کے بھائی کی اپیل پر سپریم کورٹ کے جج سعید الزماں صدیقی نے بھی حکم امتناعی جاری کیا اور سزا روک دی، چناں چہ مائی جنیدو اپنے دو بیٹوں بہادر اور منٹھار کے علاوہ داماد حاجی اکرم سمیت دیگر کی موت کا بدلہ اور انصاف کے حصول کے لئے میدان میں اتر آئی اور اس نے اپنے دو بیٹوں سمیت حیدرآباد پریس کلب پہنچ کر خود پر تیل چھڑک کر آگ لگالی اور مر گئی۔ بعدازاں ارشدجمیل کو ایک دن علی الصباح پھانسی دے کر انصاف کے تقاضوں کو نہ صرف پورا کیاگیا بلکہ یہ امر بھی واقع ہوگئی کہ قانون سے کوئی شخص بھی بالاتر نہیں ہے۔
اسی طرح 24؍مئی 1998ء کو کوئٹہ سے تربت جانے والا پی آئی اے کا طیارہ اغوا کرکے بھارت لے جانے کی کوشش کرنے والے 3ہائی جیکرز کو تختہ دار پر لٹکایا گیا۔ جن میں دو ہائی جیکرز شہسوار بلوچ اور صابر بلوچ کو سینٹرل جیل حیدرآباد جب کہ شبیر بلوچ کو کراچی سینٹرل جیل میں پھانسی دی گئی۔ طیارے میں عملے سمیت 98مسافر سوارتھے، طیارے کو انتہائی حاضر دماغی سے حیدرآباد ائیرپورٹ پر ڈرامائی انداز میں اتار کر ہائی جیکرز کو گرفتار کیا گیا تھا۔
پھانسی وہ اذیت ناک مرحلہ ہے جس سے سزائے موت کے قیدی کو بالآخر گزرنا پڑتا ہے۔ لیکن اس مرحلے کو مکمل کرنے والے انتظامیہ، افسران و عملے کا سخت گیر ہونا ضروری ہے۔ کیوں کہ زندہ آدمی کو یک لخت موت اور قیدی کی جان کنی کی کیفیت پر بے چارگی کم زور دل افراد کے لئے کسی ناخوش گوار واقعہ کا سبب بن سکتی ہے۔ قیدی کو پھانسی گھاٹ پر لے جانے سے پہلے اس کی آخری خواہش لازمی معلوم کی جاتی ہے، عموماً یہ خواہش بچوں کو پیار کرنے کی ہوتی ہے۔
لیکن بعض قیدیوں کے لیے اپنے عمل پر شرمندگی کے اظہارکے علاوہ بچوں کو بہتر تعلیم و تربیت کی فراہمی اور اہل خانہ کو صبر و دعائے مغفرت کی تلقین پر مبنی پیغام بھی ہوتی ہے۔ پھانسی کے وقت منصور گھاٹ پر جج، ایس پی جیل اور ڈاکٹر کے علاوہ جیل سپرنٹنڈنٹ موجود ہوتے ہیں۔ حیدرآباد سمیت پاکستان میں 1985ء تک قیدی کو پھانسی دئیے جانے کا پورا عمل لواحقین، معززین یا دیگر افراد کو براہ راست دکھایا جاتا تھا، جس پر وزیراعظم محمد خان جونیجو نے پابندی عائد کردی تھی۔
تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ دنیا کی قدیم تہذیب عراق سے دریافت ہونے والے حمورابی کے ضابطہ قانون میں سزائے موت کا ذکر ملتا ہے۔ جن میں پھانسی کا طریقہ عام ہے، اس سزا پر عمل درآمد کے لئے پورا طریق کار (کوڈ) موجود ہے، جس کے مطابق پھانسی سے ایک روز قبل مجرم کا وزن کیا جاتا ہے، تاکہ اندازہ ہوسکے کہ پھانسی کی رسی کیسی اورکتنی درکار ہوگی، جو مجرم کے جسم کا بوجھ سہار سکے۔
رسی مجرم کے وزن کے مطابق تیارکی جاتی ہے اور مجرم کے وزن کے مساوی ریت ایک بوری میں بھر کر اسے تختہ دار پر تجرباتی پھانسی کے عمل سے گزارا جاتا ہے۔ فوری موت کو یقینی بنانے کے لئے رسی کی لمبائی انتہائی اہمیت رکھتی ہے،زیادہ لمبی ہونے کی صورت میں مجرم کا سر تن سے جدا بھی ہوسکتا ہے لیکن زیادہ چھوٹی کرنے پر مجرم کی موت دم گھٹنے سے ہی ہوجاتی ہے۔
پھانسی کی رسی عموماً ساہیوال جیل کے قیدیوں کی تیار کردہ ہوتی ہے، اس میں سوتی دھاگے کا استعمال ہوتا ہے۔ پھانسی کی رسی تین چوتھائی انچ سے لے کر سوا انچ تک موٹی ہوتی ہے، اسے پھانسی سے قبل گرم پانی میں ابالا جاتا ہے، اور اچھی طرح کھینچ تان کر اس کی گرفت اور بل کو مضبوط کیا جاتا ہے۔ تاکہ اس میں لچک اور گھمائو ختم ہوجائے، رسی کی گرہ کو موم، صابن، مکھن سے خوب چکنا کیا جاتا ہے۔
جس کی بناء پر تختہ کھینچنے کے بعد پھندہ گردن کے گرد اچھی طرح کس جائے، پھانسی سے قبل قیدی کے دونوں ہاتھ اور ٹانگیں باندھ دی جاتی ہیں۔ چہرے کو کالے کپڑے کے نقاب سے ڈھانپ دیا جاتا ہے بعدازاں پھندا گردن کے گرد ڈالنے کے بعد گرہ کو قیدی کے بائیں کان کے قریب رکھا جاتا ہے۔ پھانسی دیتے ہوئے جلاد اس کے پیروں کے نیچے سے سختہ کھینچ دیتا ہے، جس سے اس کے جسم کا پورا وزن قیدی کے گردن پر زور ڈالتا ہے جس سے گردن کی ہڈی ٹوٹ جاتی ہے۔
پھانسی دن یا رات کے کسی پہر دینے کی بجائے علی الصباح دی جاتی ہے۔ معروف سرجن اور سول اسپتال ٹنڈو محمد خان کے سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر آصف گجر نے بتایا کہ قیدی کو علی الصباح پھانسی دینے کی چند وجوہات ہیں۔ ان میں پھانسی پر عمل درآمد جیل حکام کے لئے اس دن کا سب سے اہم کام ہوتا ہے۔ پھانسی دینے کے بعدوہاں موجود میڈیکل ایگزامینر مجرم کی موت کی تصدیق کرتا ہےاور لاش فوری طور پر ورثاء کے حوالے کردی جاتی ہے۔مجرم کو صبح کے وقت پھانسی دینے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مجرم کو دن بھر پھانسی کے انتظار کی اذیت سے نہ گزرنا پڑے، بصورت دیگر اس کی ذہنی حالت پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
پھانسی کے وقت سے چند گھنٹے قبل اسے اٹھا کر غسل کروایا جاتا ہے جس کے بعد وہ چاہے تو عبادت کرسکتا ہے۔ بعدازاں اسے پھانسی گھاٹ پر لے جایا جاتا ہے۔ وہاں جلاد مجرم کے کان میں کہتا ہے کہ ’’مجھے تمہاری موت کی خواہش ہے نہ کوئی سروکار، مجھے تو احکامات کی پاسداری کرنی ہے‘‘۔ پھانسی دئیے جانے کے دوران پھانسی گھاٹ پر مکمل خاموشی ہوتی ہے اور انتظامیہ اور جلاد کے درمیان محض اشارے ہی رابطے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔
علی الصباح پھانسی کی اہم ترین وجہ یہ بھی ہے کہ انسان کے اعضا چوں کہ تروتازہ ہوتے ہیں جس سے پھانسی کی تکلیف کم ہوتی ہے۔ سزا کی تکمیل میں تختہ دار پر لٹکانا، اتارنا جلاد کی اہم ترین ذمے داری ہوتی ہے، یہ جلاد عموماً جیل کا اہل کار بھی ہوسکتا ہے، اس حوالے سے تارا مسیح کو خصوصی شہرت حاصل ہوئی۔