تقریباً سبھی پارٹیاں خواہ وہ ایک دوسرے کو پسند کرتی ہیں یا نہیں، قومی سلامتی اور دہشتگردی کی نئی لہر اور بعض کالعدم گروپوں کی حالیہ سرگرمیوں کے بعد انتہا پسندی کے بڑھتے رجحان سے نمٹنے پر متفق نظر آتی ہیں۔ سیاسی جماعتیں اور اسٹیبلشمنٹ 2014 میں 16 دسمبر کے آرمی پبلک سکول پشاور کے بچوں کے قتل عام کے بعد ایک صفحے پر آگئی تھیں لیکن پھر سیاسی اختلافات بڑھتے گئے اور بعض طاقتور حلقوں پر سیاسی مداخلت کے الزامات لگائے گئے. یہ تقسیم گزشتہ دوسال میں مزید بڑھی ہے۔ جب پاکستان کو دہشتگردوں کو سرمائے کی فراہمی کے الزام کی وجہ سے فیٹف کی گرے لسٹ میں ڈالا گیا تو حالات مزید بگڑ گئے۔ پاکستان کو بلیک لسٹ میں تو نہیں ڈالا گیا لیکن پوری کوششوں اور شرائط پر عمل کے باوجود گرے لسٹ سے بھی نہیں نکالا گیا. حکومت کا مسئلے کے حل کا فیصلہ اور بااختیار اعلیٰ سطحی کمیشن بنانا خوش آئند قدم ہوگا۔ کیونکہ انتہا پسندی ابھی ختم ہوتی نظر نہیں آتی.بعض انتہا پسند گروپوں کو سیاسی حکمت عملی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے،جو انتہائی تشویش ناک ہے۔ پچھلے انتخابات میں بھی ہم نے اس کا مشاہدہ کیا.وزیر داخلہ ریٹائرڈ بریگیڈیر اعجاز شاہ کے اے این پی کے خلاف حالیہ بیان پر اتنی تنقید ہوئی کہ وزیر نء بالآخر اے این پی کی قیادت سے معافی مانگی۔ لیکن نئی پیش قدمی سے قومی ڈائلاگ کا آغاز ہوسکتا ہے کہ ریاست کے چاروں ستونوں کے باہمی تعلقات کیسے ہوں اور ریاست اہم ترین مسائل کو کس طرح حل کرے۔ تینوں بڑی سیاسی جماعتوں حکمران پی ٹی آئی اور اپوزیشن مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے طاقتور اسٹیبلشمنٹ کے کردار کے بارے میں اپنے اپنے بیانیے ہیں۔ عشروں سے اس پر سیاسی معاملات میں مداخلت اور حکومتیں چلانے کے الزام لگ رہے ہیں. صحیح یا غلط برسوں سے ہماری سیاست اس کے گرد گھومتی ہے. مثلاً 2013 میں اس وقت کے اپوزیشن لیڈر عمران خاں کو شبہ تھا کہ یہ نواز شریف کے ساتھ ہے اور 2018 میں اس سے الٹ ن لیگ نے الزام لگایا کہ اسی نے عمران حکومت بنوائی. پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق صدر آصف علی زرداری نے 2013 کے انتخابات کو آراوز کے الیکشن کہا تو 2018 میں ان کے بیٹے پیپلزپارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے عمران خان کو سلیکٹڈ قرار دیا۔ گزشتہ ڈھائی سال میں عمران حکومت نے شاید پچھلی دو حکومتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ سے اچھے تعلقات رکھے لیکن یہ سمجھنا نادانی ہوگی کہ عمران خان پاپولر لیڈر نہیں ہیں۔ اگرچہ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود وہ فیصلہ کن صوبے پنجاب میں مسلم لیگ ن کی مقبولیت کا گراف گرا نہیں سکے جو 2018 تک میں وہاں سب سے بڑی پارٹی کے طور پر سامنے آئی۔ گڈ گورننس، معیشت، کرپشن، احتساب کے شفاف عمل کے علاوہ قومی ڈائلاگ کیلئے بھی اسٹیبلشمنٹ کا کردار اہم لگتا ہے۔ دو اپوزیشن پارٹیوں کے اندر اس اہم معاملے کے بارے میں مختلف سٹریٹجیز ہیں۔ مسلم لیگ ن اور اس کے لیڈر نواز شریف بہت آگے چلے گئے ہیں۔ انہوں نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کے نام لے کر ان پر سیاسی مداخلت کے الزام لگائے ہیں۔ لیکن پارٹی کے لیڈر اور سابق گورنر محمد زبیر کی آرمی چیف سے دو ملاقاتوں اور ایک میں آئی ایس آئی کے سربراہ کی موجودگی کے انکشاف سے ن لیگ کو خفت کا سامنا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے ان ملاقاتوں کی تصدیق کی لیکن نواز شریف کے بیانیے پر اس کے سوا کچھ نہیں کہا کہ فوج میں افسر سے جوان تک سب متحد ہیں . پیپلز پارٹی کو ایسے حالات کا سامنا کرنے کا وسیع تجربہ ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے 2015 میں ایسا ہی بیان دے کر خود کو مشکل میں ڈال لیا تھا۔ اسی لئے پیپلز پارٹی یہ کہ کر نواز شریف کے بیانیے سے دور ہٹ گئی ہے کہ اتنے زیادہ محاذ کھول کر اپوزیشن مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں کرسکتی یعنی پی ڈی ایم آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے نام لینے کی بجائے وزیراعظم عمران خان اور پی ٹی آئی کو نشانہ بنائے۔ اس سے پہلے بلاول بھٹو زرداری نے بی بی سی کو انٹرویو میں متوازن موقف اختیار کیا لیکن کہا کہ گوجرانوالہ میں نواز شریف کی بات سن کر انہیں دھچکا لگا۔ ان کے انٹرویو اور ریمارکس سے ایک نیا تنازع شروع ہوگیا اگرچہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی اس بحث میں شامل نہیں ہوئیں۔ پی ڈی ایم نے اب نیا میثاق جمہوریت تیار کرنے کیلئے ایک کمیٹی بنائی ہے. پی ڈی ایم کی پارٹیاں اب فیصلہ کریں گی کہ صورت حال سے کیسے نمٹا جائے۔ اپوزیشن پارٹیاں ایک دوسرے پر الزام لگائے بغیر اب آئندہ کے عام جلسوں میں کسی کا نام لیے بغیر اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر نکتہ چینی کریں گی۔ یہ شاید پی ٹی آئی اور وزیراعظم عمران خان کیلئے بھی مناسب ہو جو اب یہ کہہ کر اس کا دفاع کررہے ہیں کہ کرپٹ سیاستدان اپنی کرپشن چھپانے کیلئے اسٹیبلشمنٹ کارڈ کھیل رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن کی قیادت ابھی تک نواز شریف کے بیانیے کے پیچھے لگتی ہے۔ ان کی بیٹی مریم نواز کے جلسوں میں بہت لوگ آرہے ہیں۔ لیکن پارٹی کا اصل امتحان پی ڈی ایم کے پشاور کے جلسے کے بعد ہوگا جب پی ڈی ایم پھر پنجاب میں داخل ہوگی اور پہلے ملتان اور پھر 13 دسمبر کو لاہور میں فیصلہ کن جلسہ ہوگا۔ لیکن اس بات سے قطع نظر کہ نواز کا بیانیہ کتنا مضبوط ہے اور مسلم لیگ ن پنجاب میں اب بھی کتنی مقبول ہے۔