اسلام آباد(نمائندہ جنگ) عدالت عظمی نےʼʼ قانونی اصلاحات اور لاء گریجویٹ اسسمنٹ ٹیسٹ (جی اے ٹی) ʼʼسے متعلق ایک آئینی درخواست کی سماعت کے دوران جی اے ٹی کے بغیر پنجاب بار کونسل کی فہرست میں درج ہونے والے نئے وکلا ء اور لاء جی اے ٹی میں پچاس فیصد سے کم نمبر لیکردرج ہونے والے وکلاء کے صوبہ بھر کی بار ایسوسی ایشنوں کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے پر پابندی عائد کردی ہے جبکہ سندھ، بلوچستان ،خیبر پختونخوا ا ور اسلام آباد کی بار کونسلوں کونوٹسز جاری کرتے ہوئے اس حوالے سے ان سے بھی رائے طلب کرلی ہے کہ آیا کہ اس حوالے سے جو حکم پنجاب بار کونسل کیلئے جاری کیا گیا ہے کیوں نہ اسے ملک بھر کی بار کونسلوں کیلئے بھی جاری کردیا جائے ، جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ پاکستان بار کونسل اورملک بھر کی دیگر بارکونسلیں مل بیٹھ کر لاء گریجویٹ اسسمنٹ ٹیسٹ کا معیار طے کریں، ٹیسٹ کا جو معیار جج بننے کیلئے ہے وہ وکیل بننےکیلئے نہیں ہونا چاہیے، لیکن بہر حال وکالت کے شعبے کا ایک معیار ہونا چاہیے،جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں قائم دو رکنی بنچ نے جمعرات کے روز کیس کی سماعت کی توجسٹس عمر عطا بندیال نے کمرہ عدالت میں کرونا ایس او پی پر عملدرآمد کی ہدایت کرتے ہوئے وکلا ء کو ایک دوسرے سے مناسب فاصلہ رکھ کر کھڑے ہونے کی ہدایت کی،دوران سماعت پنجاب بار کونسل کے وائس چیئرمین اکرم خاکسار ایڈووکیٹ نے موقف اختیار کیا کہ لاء گریجویٹ اسسمنٹ ٹیسٹ (جی اے ٹی) تین ماہ کیلئے معطل کیا گیا تھا،بغیر ٹیسٹ کے جو وکلاء انرول ہوئے ہیں ان سے بیان حلفی لیا گیا ہے کہ وہ ٹیسٹ پاس کرنے کے پابند ہیں،پنجاب بارکونسل بھی درخواست گزار انیق کھٹانہ کی قوانین میں اصلاحات کو کوششوں کو سراہتی ہے کہ وہ اس معاملے کو سپریم کورٹ میں لائے ہیں،پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین اعظم نذیر تارڑ نے عدالت کو بتایا کہ لاء جی اے ٹی کے بغیر انرول ہونے والے وکلا ء کے نام پہلے ہی پنجاب بار کونسل کی ووٹر لسٹ سے نکال دیئے گئے ہیں، وکالت کے معیار کو بہتر بنانے کیلئے پاکستان بار کونسل نے معیار طے کرنا ہے، سٹرکچرل ریفارمز کمیٹی کی سفارشات پر پاکستان بار کونسل نے لا ء جی اے ٹی متعارف کرایا ہے جوسال میں تین دفعہ ہوگا،انھوں نے کہا کہ کورونا وائرس کی وبا ء کے دوران پاکستان بار کونسل سے تمام صوبائی بارکونسل، والدین اورلاء کالجوں کی انتظامیہ نے رابطے کرکے کورونا کے باعث لاء جی اے ٹی کی نرمی اور پاسنگ مارکس میں کمی کی درخواست کی تھی ، بار کونسلوں کی درخواست پرجی اے ٹی کیلئے ایک وقت کی نرمی کی گئی اور نئے وکلا کو مشروط لائسنس جاری کیے گئے تھے لیکن بغیر ٹیسٹ کے لائسنس لینے والے وکلاء آئندہ ہونے والے جی اے ٹی میں شامل ہونے کے پابند ہیں، جسٹس عمر عطا ء بندیال نے ریمارکس دیے کہ وکلا کے معیار کو بہتر بنانےکیلئے نظم و ضبط ضروری ہے جومتعلقہ بار کونسل کے ذریعے ہی قائم کیا جا سکتا ہے، وکالت کے شعبے کو معیاری بنانےکیلئے قواعدو ضوابط تش دیے گئے ہیں ،اب پروفیشن کی بہتری کیلئے بار کونسلوں کوان پر عملدرآمد یقینی بنانا ہوگا ،انہوںنے مزید کہا کہ بار ایسوسی ایشنیں نوجوان وکلا ء کو سہولیات فراہم کریں ،لیکن انہیں بھی محنت کرنے کی عادت ڈالنی ہوگی،وائس چیئر مین پنجاب بار کونسل نے کہا کہ جی اے ٹی پاس کرنےکیلئے 50 فیصد نمبر مقرر کیے گئے ہیں جو زیادہ ہیں، پاسنگ مارکس 45 فیصد ہونے چاہییں ،پچھلے لاء جی اے ٹی میں ایسے سوالات بھی تھے جن کے جوابات پروفیشنل وکلا ء بھی نہیں دے سکتے ،ٹیسٹ کا لیول زیادہ بلند نہیں ہونا چاہیے جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پاکستان بار کونسل اور دیگر بارز بیٹھ کر ٹیسٹ کا معیار طے کریں،ٹیسٹ کا مقصد نوجوان وکلا ء کے علم کو جانچنا ہے نہ کہ انہیں کوئی نوکری دیناہے،ٹیسٹ میں رعایت ہو جائے تو پاسنگ مارکس کم کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔