روز آشنائی … تنویرزمان خان،لندن جیرمی کوربن نے 55 برس قبل بالکل نو عمری میں لیبر پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی اور وہ گزشتہ الیکشن میں لیبر پارٹی کے لیڈر اور لیڈر آف دی اپوزیشن رہ چکے ہیں۔ 2016 میں جیرمی لیبر پارٹی کے لیڈر منتخب ہوئے تھے۔ اس وقت سے برٹش سیاست میں موجود یہودی لابی نے جیرمی کو نشانے پر رکھ لیا تھا، جیرمی کے سوشلسٹ نظریات ہونے کی وجہ سے رائٹ ونگ کسی صورت میں ملکی باگ ڈور جیرمی کے ہاتھ میں نہیں دینا چاہتے تھے۔ انہوں نے اینٹی یہودی Anti Semitismپروپیگنڈے کی لپیٹ میں جیرمی کو بری طرح سے پھانس لیا۔ آج سیاست کی بے رحمی دیکھئے کہ جیرمی کی پارٹی سے ممبر شپ ہی معطل کردی گئی ہے۔ سوشل میڈیا پر لیبر پارٹی کے کچھ سپورٹرز کی جانب سے اینٹی یہودی اور ہالوکوسٹ پر تنقیدی پوسٹوں کو جیرمی کے خلاف استعمال کیا گیا۔ برطانیہ کے قانون میں ہالوکوسٹ کے خلاف بولنا، لکھنا جرم ہے جوکہ یہاں برطانیہ کی سیاست میں یہودی لابی کی طاقت کی نشاندہی کرتا ہے۔ گزشتہ برس مئی میں Human Rights and Equalities کی ٹیم نے لیبر پارٹی کے Anti Semeticرویوں پر تحقیقات شروع کی اورچند روز قبل اپنی رپورٹ پیش کی۔ تحقیقاتی کمیشن کو کوتاہیوں کا ذمہ دار قرار دیا۔ لیبر پارٹی کا کہنا ہے کہ یہ رپورٹ کوئی نتیجہ اخذ نہیں کرتی ہے بلکہ صرف مورد الزام ٹہھراتی ہے اور رپورٹ میں معاملے کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ۔ اینٹی جیرمی لابی نے ہاتھ آئی بات کو موقع غنیمت جانا اور بات بتنگڑ بناتے بناتے معاملہ جیرمی کی معطلی تک جا پہنچایا۔ جیرمی نے اس الزامات کے انبار کو نہ صرف جھوٹ کا پلندہ قرار دیا بلکہ اس کے الفاظ میں One is too manyکہا گیا ۔ جیرمی نے ان تمام الزامات کے آگے ٹریبونل میں مکمل دفاع کرنے کا کہا ہے کیونکہ جیرمی اسے بیرونی لابیز کی سیاسی مداخلت قرار دیتا ہے۔ اب پارٹی کے اندر اس مسئلے پر ضابطے کی کارروائی ہوگی اور پارٹی کی مجلس عاملہ جیرمی کی پارٹی رکینت ختم کرنے یا بحال کرنے پر فیصلہ کرے گی گو کہ تاحال موجودہ پارٹی لیڈر کیئر سٹارمر کو اس ایشو پر اکثریت حاصل نہیں ہے جو اس سے اتنا بڑا فیصلہ کروائے۔ سٹارمر نے یوں تو اس ایشو پر پارٹی کے اندر کسی قسم کا اثر ورسوخ استعمال نہ کرنے کا عندیہ دیا ہے لیکن یہاں دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ وہ لوگ جو لیڈر شپ کے دوران جیرمی کا ہر لمحہ دم بھرتے تھے۔ اب خاموشی دکھائی دیتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ جیرمی کے خلاف یہ اتنا بڑا اقدام کیوں کیا جارہا ہے۔ اسے مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ ٹی وی پر ایک بیان کے ذریعے اپنی غلطی کا اعتراف کرے اور پارٹی سے معافی مانگے، جیرمی نے ایسا نہیں کیا۔ یہ اقدام بالکل پاکستان میں جنرل پرویز مشرف جیسا ہے کہ ڈاکٹر قدیر کے ساتھ جو کیا تھا۔ ان سے ٹی وی پر ایٹمی راز افشا کرنے کی معافی منگوائی تھی۔ یہ اس سے ملتاجلتا اقدام ہے۔ اس ایشو پر برطانیہ کے میڈیا پر بڑے تجزیئے آرہے ہیں کہ لیبر پارٹی میں اس ایشو پر سول وار شروع ہوجانے اور بہت سے لوگ استعفیٰ دے دیں۔ پارٹی کے ٹوٹ پھوٹ جانے اور کوئی دھڑا علیحدگی اختیار کرلے ، گوکہ برطانیہ میں ایسا نہیں ہوتا، لوگ شخصیات کے پیچھے نہیں بھاگتے بلکہ پارٹی ڈسپلن کے حوالے سے ایشو کو دیکھتے ہیں، البتہ بائیں بازو کے اراکین پارلیمنٹ اور ٹریڈ یونینیز میں جیرمی کی معطلی پر اضطراب پایا جاتا ہے۔ دراصل نیو لبرل اور سرمایہ داری کے طرف دار سمجھتے ہیں کہ لیبر پارٹی میں جیرمی کی وجہ سے لیفٹ ونگ سیاست مضبوط ہورہی ہے۔ ان کے لئے اسے ختم کرنا ضروری ہے، جیرمی چونکہ طبقاتی طور پر اس برٹش اشرافیہ کا حصہ نہیں سمجھا جاتا جب کہ اشرافیہ اپنے نظریاتی مخالفین کو خاص طور پر جیرمی جیسے جو کہ روایتی سیاست پر اثر انداز ہوتے ہیں، انہیں جڑ سے نکال باہر کرنا چاہتے ہیں۔ جیرمی کوربن طبقاتی طور پر اور ذہنی طور پر محنت کشوں کے حقوق کیلئے ڈٹنے والا شخص رہا ہے۔ اس لئے دائیں بازو کے طاقتور پارلیمانی ممبران اسے توہین آمیز انداز میں دیکھتے تھے۔ 2016میں جب جیرمی کو پارٹی لیڈر چنا گیا تو دائیں بازو کی اشرافیہ نے جس کی لیڈر تھریسامے تھیں،جیرمی کو پارلیمنٹ میں انتہائی تمسخرانہ انداز میں ٹریٹ کیا۔ جیرمی کو پارلیمنٹ سے باہر ٹریڈ یونینز کی بہت سپورٹ حاصل تھی جو پارلیمنٹ کے باہر جیرمی کی سپورٹ میں پریشر گروپ کے طور پر موجود تھے۔ تاہم پارٹی کے اندر ہارڈ لیفٹ کے بعض ایشوز پر مختلف موقف ہونے کی وجہ سے جیرمی کی مخلوط سپورٹ کو منقسم کئے رکھا۔ مثلا بریگزٹ کے ایشو پر لیبر پارٹی کا ہارڈ لیفٹ یورپی یونین کے ساتھ رہنے کے خلاف تھا جب کہ لیبر پارٹی کے اندر اور عوام میں بڑی بھاری تعداد ای یو کے ساتھ رہنے کے حق میں تھی۔ اس تقسیم نے پارٹی کے اندر جیرمی کی پوزیشن کو مسلسل دو کشتیوں میں سوار رکھا جس کا بالآخر جیرمی اور پارٹی دونوں کو نقصان ہوا۔ پھر گزشتہ الیکشن میں لیبر پارٹی کی شکست کے بعد پارٹی کے اندر نیو لبرل اور بلیئرائٹ لابی کے ہاتھ بات آگئی کہ اب جیرمی کا پتا کاٹ دیا جائے۔ اس وقت تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ کے بعد ایک لیڈر جس نے بچپن سے لے کر اپوزیشن لیڈر بننے تک تمام عمر پارٹی کیلئے وقف کی۔ اسے پارٹی کی رکنیت سے بھی علیحدہ کرنے کی کوشش جاری ہے۔ اس میں،میں سمجھتا ہوں کہ مسئلہ کسی اصول کا کم اور طبقاتی زیادہ ہے۔ جیرمی کوئی کروڑ پتی نہیں ہے۔ وہ اراکین کو دولت سے مرعوب نہیں کرسکتا۔ وہ سرمایہ داری نظام میں دولت کے ذریعے دل جیتنے کے اسباب پیدا نہیں کرسکتا۔ اس کا اس مقام تک پہنچ جانا اور نچلے طبقے کے حقوق کی بات کرنا یہ سب کچھ ہوتے ہوئے بالائی طبقے نے اسے پتہ نہیں اتنی دیر تک کیسے برداشت کیا۔ لیبر پارٹی کے ترقی پسند عناصر پر اس وقت ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ جیرمی کوربن کی سپورٹ میں اس کے ساتھ کھڑے ہوں۔