• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلوچستان کی زمین، آب و ہوا: زیتون کی کاشت کیلئے موزوں ترین ہے

زیتون کا پھل زمانۂ قدیم ہی سے صحت بخش اوربعض مذاہب میں مقدّس سمجھاجاتا ہے۔ قدیم یونان میں اس کا درخت خوش حالی اور کام یابی کاموجب مانا جاتا۔ زیتون ایک چھوٹے درخت کے خاندان سے تعلق رکھنے والی نوع ہے، جو بحیرۂ روم کے مضافاتی علاقوں میں آبائی طور پر پائی جاتی ہے۔ زیتون کا پھل بحیرۂ روم کے خطّے کی اہم زرعی جنس ہے، جس سے تیل کشید کیا جاتا ہےاور جو عمومی طور پر کھانا پکانے میں استعمال ہوتا ہے۔ زیتون کی پیدا وار کے بڑےممالک اسپین ، اٹلی اور یونان ہیں۔ تاہم،اس کا زیادہ استعمال یونان اور اس کے بعد اسپین، اٹلی اور تیونس میں ہوتاہے۔

زیتون کا تیل ایک طویل عرصے سے بحیرۂ روم کے کھانوں کا ایک اہم جزو ہے، جن میں قدیم یونانی اور رومن کھانے بھی شامل ہیں۔ جنگلی زیتون جمع کرنے کی ابتدا آٹھویں صدی قبلِ مسیح میں پتھر کے زمانے کے لوگوں نے ایشیائے کوچک سے کی تھی۔ 

کھانے کے علاوہ زیتون کا تیل مذہبی رسومات، ادویہ، صابن سازی، کاسمیٹکس اورتیل لیمپ میںبطور ایندھن بھی استعمال ہوتا ہے۔ ساتویں صدی قبلِ مسیح کے آغاز سے ہیلنک شہر کی تمام ریاستوں میں کاسمیٹکس میں زیتون کے تیل استعمال کاشروع ہوا، جومنہگا ہونے کے باوجود ایک ہزار سال تک جاری رہا۔

ماحولیاتی سائنس اور بایو ٹیکنالوجی کے شایع کردہ ایک مضمون کے مطابق، ’’زیتون کا جدید درخت غالباً قدیم فارس اور میسو پوٹیمیا میں لگایا گیا تھا، جو بحیرۂ روم کے بیسن میں شام اور فلسطین کی طرف پھیلتا چلاگیا،جہاں اس کی کاشت کی گئی تھی اور بعد میں اسے شمالی افریقا میں متعارف کروایا گیا ۔‘‘

کچھ ماہرین کا استدلال ہے کہ زیتون کی کاشت کی ابتدا قدیم مصریوں سے ہوئی ۔مشرقی بحیرۂ روم میں زیتون کے درخت کی کاشت اور تیل کی پیداوار کا پتا قدیم شہری ر یاست ایبلا (2600–2240 قبلِ مسیح) کے آرکائیوز سے ملتاہے، جو شام کے شہر حلب کے مضافات میں واقع تھا۔

2000 قبلِ مسیح کے مصر کے باسی زیتون کا تیل شام اور کنعان سے درآمد کرتے تھے اور یہ تیل تجارت اور حصولِ دولت کا ایک اہم ذریعہ تھا۔زیتون کا درخت تاریخی طور پر اقوامِ عالم کے مابین امن کی علامت رہا ۔

زیتون کی بہت سی اقسام ہیں،جو ذائقےاور بناوٹ کےاعتبار سے منفرد حیثیت رکھتی ہیں۔حتٰی کہ اس کے تیل کا ذائقہ بھی اس پر منحصر ہے کہ پھل کس مرحلے میں توڑا گیا ۔

اسپین ،ایکسٹرا ورجن زتیون کے تیل کی کُل پیداوار کا تقریباً 55فی صد پیدا کرتا ہے ،جب کہ باقی سب ممالک مجموعی طورپر45فی صدآئل پیدا کرتے ہیں۔دنیا کی سب سے بڑی زیتون کے تیل کی چکّی ، المازاراہے ، جو روزانہ 2500 ٹن زیتون کا تیل پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، یہ جائن کے شہر ولاکریلو میں ہے۔متعدّد آسٹریلوی کارپوریٹ کاشت کار دس لاکھ سے زائد زیتون کےدرختوں کے باغ رکھتے اور عام مارکیٹ میں تیل تیار کرتے ہیں۔ شمالی امریکا میں،اطالوی اور ہسپانوی زیتون کا تیل سب سے مشہور ہے۔ بین الاقوامی زیتون کاؤنسل (آئی او سی)، ریاستوں کی ایک بین السرکاری تنظیم ہے ،جو زیتون یا زیتون سے حاصل کردہ مصنوعات ریگولیٹ کرتی ہے۔ 

اگر پاکستان کی بات کی جائے توبلوچستان کا ماحول ، حالات ، زمین اورآب و ہوا زیتون کی کاشت کے لیے موزوں ہے۔ موسیٰ خیل، خضدار، لورالائی میں زیتون کی پیدوار اورتیل کا تناسب 20سے 29فی صد ریکارڈ کیا گیاہے ۔اس حوالے سے بلوچستان ایگری کلچر اینڈ ریسرچ ڈویلپمنٹ سینٹر (BARDC) کے سائینٹفک آفیسر، عبداللہ بلوچ کا کہنا ہے کہ ’’کوئٹہ، خضدار اور لورالائی میں بہت جلددوسے تین زیتون کشید کرنے والی مِلز قائم کی جارہی ہیں۔ چوں کہ پنجگور ،واشک ،خاران،نوشکی ،دالبندین، خضداراور دیگر علاقوں میں زیتون کی کاشت کے وسیع امکانات موجود ہیں، تو ان علاقوں میں کاشت شروع کرنے اور بڑھانے کی پلاننگ ہے۔ 

ہمارے ادارے کے تحت کوئٹہ ،شاہی باغ خضدار ،ریسرچ سینٹر باغبانہ اور لورالائی میںتو پہلے ہی سے نرسریاں موجود ہیں،جو سالانہ ایک لاکھ کے قریب پودے تیار کرکے زمین داروں کو فراہم کررہی ہیں۔پھروفاقی حکومت نے بھی بلوچستان کے 16 اضلاع میں زیتون کے باغات کی کاشت اورزیتون کے تیل کی پیداوار ، پراسیسنگ کی سہولتوں میں اضافے کا منصوبہ بنایا ہے۔ ‘‘محکمۂ زراعت کا ریسرچ وِنگ خطّے میں آئے دن خشک سالی کے مسئلے کو سامنے رکھتے ہوئے ہر قسم کی فصلوں ،خصوصاً زیتون کے باغات کی کاشت کے لیے کسانوں کو ترغیب دے رہا ہے۔

مشینری ، آلات کی خریداری اور انسٹالیشن کے بارے میں ذرایع کا کہناہے کہ’’ کوئٹہ میں ایک گرین ہاؤس قائم کیا گیا ہےاور حال ہی میں اٹلی سے زیتون کے تیل کے دوپراسیسنگ یونٹس بھی درآمد کیے گئے ہیں۔نیز، خضدار،کوئٹہ ، لورالائی میں تین شیڈ زتعمیر ہوئے ہیں ۔‘‘اس کے علاوہ پاکستان ایگریکلچر ریسرچ کاؤنسل (پی اے آر سی) نے شجرکاری مہم کے ایک حصّے کے طور پر بلوچستان میں زیتون کے 6لاکھ بیس ہزار پودے لگائے ہیں۔

ان کے ذرایع کا کہنا ہے کہ ’’ زیتون کے ایک لاکھ پودے ہماری اپنی نرسریوں میں تیار ہوئے، جب کہ باقی ماندہ اٹلی سے درآمد کیے گئے ہیں۔ جب کہ زیتون کا تیل نکالنے کے لیے کوئٹہ میں 2ارب روپے سے زائد لاگت کا ایک پلانٹ بھی لگایا جارہا ہے۔‘‘یاد رہے، وفاقی حکومت شمسی واٹر پمپ پروگرام بھی شروع کررہی ہے، جس کےتحت بلوچستان کے چھوٹے کاشت کاروں میں 30ہزار شمسی پمپس تقسیم کیے جائیںگے۔اس کے علاوہ بنجر زمین کے وسیع رقبے کو زیرِ کاشت لایا جائے گا۔

پاکستان میں پہلی بار زیتون ،پی اے آر سی نے 1986ءکے دوران ایک اطالوی پراجیکٹ کے تحت زیتون کو متعارف کروایا ۔اس پراجیکٹ کے بعد ایک سروے کیا گیا ،جس میں قدرتی طور پر پائے جانے والے جنگلی زیتون کی نسل کی تعداد کا اندازہ لگایا گیا ، تو پاکستان کے مختلف اضلاع میں آٹھ لاکھ سے زیادہ جنگلی زیتون کے پودوں کاسراغ ملا۔ بعد ازاں، اقتصادی ترقی اور غربت کے خاتمے کے لیے زیتون کی کاشت کے فروغ کے منصوبے کے تحت اٹلی کی حکومت سے ایک معاہدہ کیا گیا، جس کے تحت کے پی کے، بلوچستان، فاٹا اور پنجاب میں پی آر سی کے مضبوط کوآرڈینیشن سسٹم کے ذریعے کام کیا جارہا ہے۔ 

اس منصوبے کا مقصد پنجاب، خیبرپختون خوا، بلوچستان اور فاٹا میں قابلِ فصل اراضی ،زیتون کی کاشت کے لیے استعمال کرکے خوردنی تیل کی مقامی پیداوار میں اضافہ کرنا ہے۔ اس کا ایک اور مقصد بلوچستان کے علاقوں میں زیتون کی کاشت بڑھانابھی ہے۔ خیال ہے کہ اگر مختلف صوبوں میں موجود آٹھ لاکھ جنگلی زیتون کے درختوں کی پیوند کاری کرکے پیدواری زیتون میں تبدیل کردیا جائے ،تو نہ صرف باہر سے خوردنی تیل کی درآمد پر خرچ ہونے والا کثیر زرِمبادلہ بچا یاجاسکتا ہے بلکہ اضافی پیدوار سےبرآمدات میں اضافہ بھی ممکن ہے۔

تازہ ترین