تبدیل کاروں نے اپنے ایک سیاسی نعرے کو ملکی آزادی کے دن نافذ کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ ہمارے مبنی برحقیقت تجزیے کے مطابق اِس دلفریب اور پُرکشش نعرے کے اچانک اور فوری نفاذ سے پاکستان کے تعلیمی نظام کی تباہی، درسی کتب کی اشاعت کے ذمہ دار نجی اداروں کی بربادی اور اُن سے وابستہ لاکھوں تدریسی ماہرین، دانشوروں اور دیگر محنت کشوں کو بےروزگاری کے مایوس کن اندھیروں کا شکار ہونا پڑے گا۔
اِس تباہ کن صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے ہمیں مملکت خداداد کے معروضی حقائق پر ایک نظر غائر ڈالنا ہوگی۔ اس ضمن میں پہلی بات یہ ہے کہ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں مفلسی اور جہالت کے ساتھ ساتھ فکری، مذہبی اور سیاسی تضادات پرمشتمل گروہوں کی اجارہ داری نے عوام کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو مفلوج بنا کر رکھ دیا ہے۔ کیا ایسے معاشرے میں چند مہینوں میں مرتب کردہ یکساں نصابِ تعلیم اور ایک سرکاری کتاب کی غیرعلمی سوچ کے فوری نفاذ سے عوام کے دکھوں کا علاج اور ایک باوقار تعلیم یافتہ قوم کی تشکیل نو ہو پائے گی؟اس سلسلے میں ہمارا موقف یہ ہے کہ جب تک عوام کو در پیش بد ترین اور الجھے ہوئے مسائل اور شدید مصائب سے نجات نہیں دلائی جاتی، مافیائی طبقات اپنے منافقانہ رویے ترک نہیں کرتے، بالا دست قوتیں اور سول ادارے اپنی آئینی حدود سے تجاوز کرنا نہیں چھوڑتے، عمائدین سیاست ان اداروں کی ملی بھگت سے کرپشن اور بدعنوانی سے باز نہیں آتے اور مکمل جھوٹ کی بنیاد پر قائم معاشرتی بت کو مکمل سچ کے ذریعے پاش پاش نہیں کیا جاتا، اس وقت تک یکساں یا غیریکساں نظام تعلیم اور دیگر احتسابی اور اصلاحاتی منصوبوں کو کامیابی نصیب نہیں ہو سکتی۔گزارش ہے کہ کسی بھی عوامی و قومی نوعیت کی منصوبہ بندی کو پالیسی سازی کا جامہ پہنانے سے قبل صرف افسر شاہی پر انحصار نہ کیا جائے بلکہ عوام میں موجود اپنے اور ملک کے خیر خواہوں اور متعلقہ شعبے کے سر مایہ کاروں اور محنت کشوں پر بھروسہ کرتے ہوئے ان سے بھی مشاورت کا اہتمام کیا جائے۔ اس طرح اتفاق رائے سے تشکیل پانے والے منصوبے ملک کی معاشی و معاشرتی ترقی کے لئے سنگ میل ثابت ہو سکتے ہیں۔
محترم وزیراعظم! ملک کے سب سے اعلیٰ اور با اختیار عہدے پر فائز ہونے کے باوجود آپ بھی بارہا اظہار کر چکے ہیں کہ ’’ملکی ترقی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ اشرافیائی قوتیں ہیں‘‘۔ ہم آپ کی اس حقیقت پسندانہ سوچ سے مکمل اتفاق کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ وہی بے رحم اشرافیہ ہے جس نے وطن عزیز کی90فیصد آبادی کے حقوق غصب کر رکھے ہیں۔عوام کا اضطراب اس وقت شدت اختیار کر جاتا ہے جب آپ بھی انھیں نظر انداز کر کے اپنے پُرخلوص سپنوں کی تعبیر انہی Status Coکے حامی ریاستی اداروں میں موجود اس ناپاک اشرافیہ کے عوام دشمن کل پرزوں کے ذریعے پوری کروانے کے متمنی نظر آتے ہیں۔
محترم وزیراعظم! اب بھی وقت باقی ہے، آپ عوام کو ذلتوں کے عذاب سے نجات دلانے اور ملکی سلامتی و بقا کے لیے کچھ کرنے کا عزم رکھتے ہیں تو آپ کو اقتدار کی غلام گردشوں کے حصار سے نکل کر اس دھرتی کی ماتم کناں تاریخ کے مجرموں کو بلا تخصیص کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے از سر نو عوامی اور جمہوری جدوجہد کا آغاز کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اہلِ وفا کے پاس اب یہی ایک راستہ بچا ہے جسے ابھی تک اس دھرتی کے سینے پر آزمایا نہیں گیا۔آخر میں ہم آپ کے سامنے یکساں نصاب تعلیم اور ایک سرکاری کتاب کے انتہائی غیرمناسب فیصلے کے حوالے سے چند گزارشات پیش کرنا چاہتے ہیں۔
1۔یکساں نصاب تعلیم کو 2021کی بجائے کم از کم دو سال مزید مؤخر کیا جانا چاہیے۔ اس دوران اہلِ دانش سے تجاویز لی جائیں کہ اس نصابِ تعلیم کو زمینی حقائق اور جدید تعلیمی تقاضوں سے کیسے ہم آہنگ کیا جاسکتا ہے؟ اس عرصے میں نجی و سرکاری تعلیمی اشاعتی اداروں کے پاس موجود اربوں روپوں کی مالیت پر مشتمل کتب ضائع ہونے سے بچ سکتی ہیں، اور نجی پبلشنگ اداروں سے منسلک لاکھوں اہل علم و ہنر، تعلیمی ماہرین اور تکنیکی محنت کشوں کو بے روزگاری کے تکلیف دہ عمل سے بھی بچایا جاسکتا ہے۔ 2۔قومی نجی پبلشنگ کے ذمہ دار اداروں کو علم دشمن افسر شاہی کے ذریعے بدنام کرنے کی مذموم مہم کوفوراً روکا جائے۔ 3۔نجی تعلیمی اشاعت کے محب الوطن ذمہ دار عناصر کے ساتھ باضابطہ مشاورت اور مذاکراتی عمل کا فوری آغاز کیا جائے۔ 4۔ سرکاری تعلیمی بورڈز کو بدعنوان اور علم دشمن افسر شاہی کے چنگل سے آزادکروا کے محب وطن اہل علم و دانش، تدریسی ماہر ین، اہلِ فکر و نظر اور فہم و فراست کی حامل نابغۂ روزگار شخصیات کی زیر نگرانی چلایا جائے۔ 5۔ اگر آپ ان بیان کردہ حالات و واقعات کے باوجود بھی یکساں نظام تعلیم کو کسی انقلابی تبدیلی کا موجب سمجھتے ہیں تو کم از کم اس کو فوری طور پر نافذ کرنے کی بجائے مرحلہ وار اور ایک ارتقائی و تدریجی اس عمل کے تحت نافذ کرنا چاہئے تاکہ طلبہ آسانی سے اس نظام کی علمی و تعلیمی افادیت سے فیضیاب ہوسکیں۔
محترم وزیراعظم! اس متوقع تعلیمی تباہی و بربادی سے قبل ہم نے ایک وطن پرست پاکستانی کی حیثیت سے اس عرضداشت کے ذریعے آپ کے سامنے معاشی، معاشرتی، سیاسی، تہذیبی و تمدنی اور تاریخی تناظر میں اپنے حصے کی شمع جلانے کی اپنی سی ایک کاوش کی ہے۔اب دیکھیے کہ آپ کے آئندہ کے فیصلے عوام کو صبح نو کے پرامید اجالوں سے منور کرتے ہیں یا پھر شب تار کی ناامیدی کے اندھیروں کا عندیہ دیتے ہیں۔