اسلام آباد (فخر درانی)گلگت بلتستان انتخابی سروے؛ ہر کوئی قاصد پر الزام کیوںلگاتا ہے؟ ایگزیکٹو ڈائریکٹر گیلپ پاکستان کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو عوامی سروے پر اپنی رائے کے اظہار کا حق ہے۔ سی ای او پلس کنسلٹنسی کا کہنا ہے کہ جیو/جنگ گروپ نے کبھی بھی خاص نتائج کے لئے ہم پر دباؤ نہیں ڈالا۔ پاکستان مسلم لیگ نواز (مسلم لیگ ن) نے الزام لگایا ہے کہ گلگت بلتستان میں حالیہ انتخابات سے قبل ہونے والے سروے دھاندلی کے عمل کا حصہ تھے۔ یہ سروے گیلپ اور پلس کے ذریعہ کئے گئے تھے اور جیو / جنگ گروپ نے جاری کیے تھے۔ بڑی اپوزیشن پارٹی کے الزامات نئے نہیں ہیں۔ ماضی میں بھی سیاسی جماعتوں نے اس قاصد یا پیغام رساں پر حملے کئے جب سروے کے نتائج ان کے لئے ناگوار ہوئے لیکن جب سروے ان کیلئے مناسب ہوئے تو انہوں نے اس کی توثیق کی اور ان سے مدد لی۔ مسلم لیگ ن نے بار بار الزام لگایا ہے کہ حالیہ سروے گلگت بلتستان انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کا حصہ ہیں۔ تاہم حکام کے خیالات اور سروے ایجنسیوں کے سربراہان کی رائے حزب اختلاف کی پارٹی کے الزامات سے بالکل مختلف ہیں۔ زمینی حقائق ، وفاق میں آنے والے عوامل اور انتخابات سے قبل مسلم لیگ (ن) کو ترک کرنے والے کچھ الیکٹیبلز وہ عوامل ہیں جن کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ماضی میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور عمران خان نے بھی جیو / جنگ گروپ پر انتخابات میں دھاندلی میں کلیدی کردار ادا کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ ماہرین کے مطابق انتخابات سے پہلے کا سروے کسی ایک ایجنسی نے نہیں کیا تھا بلکہ دو مختلف ایجنسیوں نے کیا تھا جنہوں نے انتخابات کے نتائج کی پیش گوئی کی تھی۔ ایک سروے ایجنسی گیلپ ہے جو پاکستان تحریک انصاف کے مطابق مبینہ طور پر پی ٹی آئی مخالف ہے۔ اسی طرح سروے کی ایجنسیوں نے طریقہ کار اور سروے کے نتائج شائع کیے تھے لہٰذا سروے کے نتائج پر کسی قسم کے شبہات پیدا نہیں ہوتے۔ گلگت بلتستان (جی بی) میں ہونے والے انتخابات پر گہری نظر رکھنے والے سیاسی ماہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے پاس جی بی انتخابات 2020 کی دوڑ میں صرف چھ سنجیدہ امیدوار تھے۔ اس کے بیشتر الیکٹیبلز نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرلی تھی یا آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑا تھا۔ معلقہ حکام کے مطابق فیڈریشن میں حکمران جماعت عام طور پر اس قسم کے انتخابات میں جیت جاتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں جی بی انتخابات میں عہدہ یا منصب بہت بڑا کردار ادا کرتا ہے۔ ان سروے کے صرف دو دن بعد جیو / جنگ گروپ نے ایک اور سروے شائع کیا جس کے نتائج مسلم لیگ (ن) کے لئے موزوں تھے۔ اس سروے کے مطابق اگر فوری اور غیرمتوقع قومی انتخابات ہوئے تو مسلم لیگ (ن) تحریک انصاف کو ہرا دے گی۔ اسی طرح ایک اور سروے میں جو جیو / جنگ گروپ نے اسی دن شائع کیا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ بدعنوانی کے لئے پی ٹی آئی کی مہم دراصل مقابلہ کے خلاف ایک مہم ہے۔ تاہم مسلم لیگ (ن) نے ان سروے پر انگلیاں نہیں اٹھائیں۔ بلال گیلانی ایگزیکٹو ڈائریکٹر گیلپ پاکستان نے دی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو کسی بھی عوامی رائے شماری یا سروے پر اپنی رائے کا اظہار کرنے کا حق حاصل ہے ۔ گیلانی کا کہنا تھا کہ اگر سروے سیاست کے بارے میں ہے تو یقیناً سیاستدان اس بارے میں اپنی رائے دیں گے۔ اگر کوئی سروے کا تنقیدی جائزہ لے، طریقہ کار پر سوالات اٹھائے ، سروے کے نمونوں پر انگلی اٹھائے، نمونے میں مرد اور خواتین کا تناسب قابل اعتراض ہو وغیرہ، تب ہم اس کا جواب دے سکتے ہیں اور مناسب طریقے سے مشغول ہوسکتے ہیں۔ تاہم نیت پر سوالات اٹھانا مشکل ہے اور اس کا معقول تجزیہ نہیں کیا جاسکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ دو ایجنسیوں نے سروے کیا ہے؛ اگر ان کے نتائج مکمل طور پر مخالف ہوں تو پھر سروے سے پوچھ گچھ کی جاسکتی ہے۔ لیکن اگر ان کے نتائج قریب یکساں ہوں تو پھر یہ سروے کے نتائج کو مستند کردیتی ہے۔ کاشف حفیظ صدیقی سی ای او پلس کنسلٹنسی نے دی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سروے بنیادی طور پر انتخابات سے قبل نتائج کی پیش گوئی کے لئے کئے جاتے ہیں اور یہ کام دنیا بھر میں کیا جارہا ہے۔ انہوں نے تبصرہ کیا کہ ہمیں سروے کے لئے جیو / جنگ گروپ کے ذریعہ رکھا گیا تھا لیکن جیو نے کبھی بھی خاص نتائج کے لئے ہم پر دباؤ نہیں ڈالا۔ جیو / جنگ گروپ پاکستان میں واحد میڈیا ادارہ ہے جو ملک میں کسی بھی اہم واقعہ سے قبل سروے ایجنسیوں کو شامل کرتا ہے۔ اس ادارے نے ہم سے سروے کے مطلوبہ نتائج کا مطالبہ کبھی نہیں کیا حالانکہ ہم نمونے لینے کے طریقہ کار پر گفتگو کرتے ہیں۔ ہمارے سروے کا نمونہ سائز تمام 24 حلقوں سے 1400 تھا۔ کاشف کا کہنا تھا کہ اگر سروے کا عمل درست نہیں ہوتا تو کوئی بھی تحقیقاتی نتائج پر سوال اٹھا سکتا ہے لیکن اگر یہ سروے سائنسی انداز میں انجام دیا گیا ہو تو پھر انگلی اٹھانا یا نتائج کو پولنگ سے قبل ہونے والی دھاندلی کے طور پر لیبل لگانا بلاجواز ہے۔ اگر سروے کے نتائج کسی کی خواہشات کے مطابق ہوں تو وہ اسے قبول کریں گے اور اگر نتائج ان کے خلاف ہیں تو وہ اسے مسترد کردیں گے۔ وہ لوگ جو سروے کے نتائج کو ابھی مسترد کر رہے ہیں ماضی میں پلس کے سروے کی توثیق کر چکے ہیں۔