• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آخر کار جوبائیڈن کی شرافت، بردباری، انکساری اور ذہانت جیت گئی جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کا تکبر، غرور، نا انصافی اور نفرت و حقارت کا بیانیہ اس کی شکست کا سبب بن گیا۔ صدر ٹرمپ نے اگرچہ اقتصادی معاملات اور فارن پالیسی کے شعبوں میں نسبتاً بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا مگر اس کے طرز حکمرانی سے امریکی عوام سخت بیزار اور نالاں تھے۔ صدر ٹرمپ کا دعویٰ تھا کہ ان کے دورِ حکومت میں ملک کی اقتصادی حالت بہتر ہوئی ہے۔ عوام خوشحال ہوئے ہیں اور بیروزگاری میں کمی آئی ہے جبکہ مخالفین کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ کی پالیسیز کا فائدہ امیر طبقے اور بڑے کاروباری لوگوں کو پہنچا ہے، چھوٹے کاروبار اور ملازمتیں کرنے والوں کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ صدر ٹرمپ کی نسلی اور مذہبی تعصب پر مبنی پالیسیوں کی وجہ سے افریقن، امریکن، ہسپانوی نژاد اور دوسری اقلیتوں نے کھل کر صدر ٹرمپ کی مخالفت کی اور ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار جوبائیڈن کو ووٹ دیئے۔ اندازوں کے مطابق اسی فیصد سے زائد مسلمانوں، ہندوئوں اور یہودیوں نے نو منتخب صدر جوبائیڈن کو ووٹ دیئے۔ آرتھو ڈاکس یہودیوں کے گروہ نے البتہ صدر ٹرمپ کی حمایت کی جس کی وجہ اس کی اسرائیل نواز پالیسیاں اور امریکی سفارتخانے کی یروشلم منتقلی تھی۔ ہندو ووٹروں کی اکثریت مودی کی ٹرمپ سے قربت کے باوجود ان کی امیگریشن رولز میں تبدیلی خصوصاً H-1ویزہ کی بندش اور نائب صدارتی امیدوار کملا ہیرس کے بھارتی کنکشن کی وجہ سے ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار کو سپورٹ کر رہی تھی۔ امریکہ میں مقیم مسلمان بھی صدر ٹرمپ کے مسلمانوں کے خلاف اقدامات، اقلیتوں کے خلاف بیانات اور ہیلتھ کیئر سمیت دوسرے ڈومینک ایشوز کی وجہ سے جوبائیڈن کی کھل کر حمایت کر رہے تھے۔ امریکہ کی اہم ترین ریاست مشی گن میں مسلم ووٹوں نے صدر ٹرمپ کی شکست میں اہم کردار ادا کیا۔

صدر ٹرمپ ایک زیرک اور کائیاں بزنس مین تھا جو انسانوں کی نفسیات سمجھتا تھا۔ چار سال قبل اس نے امریکہ کی سفید فام آبادی کو رنگ و نسل کی بنیاد پر اپنی طرف مائل کیا، سفید فام کلچر، تشخص اور مذہب کو بچانے کے نام پر اقتدار حاصل کیا۔ حالیہ الیکشن میں اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ کارکردگی کی بنیاد پر وہ دوبارہ منتخب نہیں ہو سکتا چنانچہ اس نے دوبارہ نسلی کارڈ کھیلتے ہوئے امریکہ کی سفید فام مڈل اور ورکنگ کلاس کو بیرونی و اندرونی نسلی یلغار سے بچانے کا نعرہ بلند کیا جس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہو چلا تھا مگر اپنے غیر ذمہ دارانہ اور روکھے رویے کی وجہ سے کامیابی نہ حاصل کر سکا۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ صدر ٹرمپ کے روس کی طرف جھکائو، روایتی حلیف یورپ سے دوری، ہمسایہ ممالک کے خلاف درشت رویے اور قومی سلامتی کے اداروں کے اعلیٰ افسران کی سرزنش پر خوش نہیں تھی۔ کورونا کی وبا، جس کی وجہ سے معیشت تباہ اور لاکھوں لوگ لقمہ اجل بن گئے ، کو سیریس لینے کے بجائے اس کا تمسخر اڑایا گیا اور الیکشن سے چند روز قبل صدر ٹرمپ خود کورونا کا شکار ہو کر ہسپتال داخل ہوئے تو اس دن وہ عملاً الیکشن ہار گئے تھے۔

آئندہ چند ہفتوں میں صدر بائیڈن اور ان کی ٹیم حکومت سنبھال لے گی۔ اس موقع پر پاکستان کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو نئے سرے سے اپنی حکمتِ عملی ترتیب دینی ہو گی۔ آنے والی حکومت انسانی حقوق، مذہبی روا داری اور میڈیا کی آزادی جیسے امور پر گہری توجہ دے گی۔ نئے امریکی صدر جوبائیڈن پاکستان کے متعلق اچھے خیالات رکھتے ہیں جن کے ساتھ مل کر علاقائی امن اور خوشحالی کے لئے کام ہو سکتا ہے۔ حکومت پاکستان کو چاہئے کہ نئی ایڈمنسٹریشن اور ڈیموکریٹ پارٹی کے قریبی پاکستانی نژاد امریکن شخصیات جن میں فاروق مٹھا، خواجہ منیر، ڈاکٹر زیلاف، ڈاکٹر آصف، ڈاکٹر ظفر، ڈاکٹر اعجاز، دلاور سید، منیر چوہدری، طاہر جاوید اور بہت سے دوسرے محبِ وطن شامل ہیں، ان سے قریبی رابطہ رکھے اور پاک امریکہ تعلقات میں بہتری کے لئے ان کے اثر و رسوخ سے فائدہ اٹھائے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ انتہائی قابل اور منجھے ہوئے وزیر ہیں، انہیں چاہئے کہ خارجی معاملات اور امور پر زیادہ توجہ دیں تاکہ دنیا کی اہم ترین سپر پاور کے ساتھ ہمارے تعلقات پیچیدگیوں کا شکار نہ ہوں۔

(صاحب مضمون سابق وزیر اطلاعات پنجاب ہیں)

تازہ ترین