• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دو بڑی اور تباہ کن جنگوں کا سامنا کرنے کے بعد دنیا کو تیسرے عالمگیر تصادم سمیت معاشی، ماحولیاتی‘ وبائی اور دوسرے بحرانوں سے بچانے اور بنی نوع انسان کو امن‘ ترقی اور خوشحالی سے ہمکنار کرنے کے لئے بین الاقوامی سطح پر جو کوششیں کی جارہی ہیں‘ اُن میں امیر ممالک کی تنظیم جی20کا کردار نمایاں ہے۔ سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں اِس تنظیم کی 15ویں  سربراہ کانفرنس میں جس کے رُکن ممالک کے سربراہوں نے آن لائن خطاب کیا‘ اِس بات پر زور دیا گیا ہے کہ موجودہ دور کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے تمام ملکوں کو اقوامِ متحدہ کے منشور اور فیصلوں کی سختی سے پابندی کرنی چاہئے۔ سعودی عرب کے شاہ سلیمان بن عبدالعزیز نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ دنیا کے محفوظ اور روشن مستقبل کی خاطر ہمیں تمام انسانوں کو بااختیار بنانے‘ کرۂ ارض کے تحفظ اور نئے اُفق دریافت کرنے کے لئے جدوجہد کرنا ہوگی۔ ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ بین الاقوامی تجارتی نظام سب قوموں کے لئے موزوں ہو اور پائیدار ترقی کے حالات سب کے لئے یکساں ہوں۔ چین کے صدر شی جن پنگ نے دنیا کے تمام ملکوں پر زور دیا کہ ایک منصفانہ اور پُرامن بین الاقوامی نظام کو مضبوط بنانے کے لئے اقوامِ متحدہ کے منشور‘ مقاصد اور اصولوں کی پیروی اور اُس کے اختیارات اور فیصلوں کی ڈٹ کر حمایت کی جائے۔ اُنہوں نے معاشی عالمگیریت‘ آزاد تجارت‘ شفاف مسابقت‘ غریب اور ترقی پذیر ممالک کے حقوق و مفادات کے تحفظ کی پرزور حمایت اور یکطرفہ‘ جانبدارانہ اور متنازعہ اقدامات کی مخالفت کی۔ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ پیش کرتے ہوئے کرونا وائرس سے پیدا شدہ صورتحال میں بین الاقوامی معیشت کو خسارے اور بحران سے بچانے کے لئے سعودی عرب اور دوسرے جی 20ممالک کی جانب سے اربوں ڈالر کی امداد قرضوں کی ادائیگی میں تاخیر کی سہولت اور دوسرے اقدامات کا ذکر کیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی بھی کانفرنس کے آن لائن شرکاء میں شامل تھے۔ اُنہوں نے بھی دنیا کو ’’مل جل‘‘ کر رہنے کا درس دیا اور ماحول کے تحفظ کے فوائد بیان کئے۔ جی20 کانفرنس میں جن اصولوں اور مقاصد کا پرچار کیا گیا بلاشبہ اپنی جگہ وہ سب درست ہیں مگر عملاً دنیا میں اِس وقت ’’جس کی لاٹھی اُس کی بھینس‘‘ کا راج ہے اور لاٹھی امریکہ کے پاس ہے جسے اُس کے حواری بھی بلاتکلف استعمال کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اِس صورتحال میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ امن و سلامتی اور ترقی و خوشحالی کے اعتبار سے دنیا کا مستقبل کیا ہوگا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکہ جس طرح اقوامِ متحدہ کو استعمال کررہا ہے‘ جس طرح اُس نے ایران پر پے در پے ناروا پابندیاں لگائیں‘ چین کے خلاف اقتصادی جنگ کو ہوا دی‘ بھارت کے ساتھ پاکستان اور چین کے خلاف اسٹریٹجک معاہدہ کیا اور کئی دوسرے چھوٹے ملکوں کے قومی حقوق پامال کئے، یہ ایک الگ ’’لمحہ فکریہ‘‘ ہے مگر دو ارب انسانوں کے خطے پاک و ہند کے لئے بھارت کی نسل پرست ہندو توا مودی حکومت نے جو خطرات پیدا کردیے ہیں‘ عالمی برادری خصوصاً جی 20ممالک کو اُن پر سنجیدگی سے توجہ دینی چاہئے۔ مقبوضہ کشمیر پر زبردستی قبضہ‘ کشمیریوں کے قتلِ عام‘ اُن کی اکثریت ختم کرنے کیلئے بھارت سے لاکر ہندوئوں کی غیرقانونی آباد کاری‘ کنٹرول لائن پر مسلسل جنگی کارروائیاں اور خود بھارت میں مسلمانوں کی ظالمانہ نسل کشی برصغیر کے لئے ہی نہیں‘ عالمی امن کیلئے بھی تباہ کن اقدامات ہیں۔ اِن سے عالمی امن رہے گا نہ معاشی اور معاشرتی استحکام۔ ایسی صورتحال میں جیسا کہ چین کے صدر نے کہا پوری دنیا کو اقوامِ متحدہ کے منشور اور فیصلوں پر عملدرآمد کے لئے ڈٹ کر کھڑے ہو جانا چاہئے۔

تازہ ترین