
قاری غلام یاسین تھے جن کا تعلق ضلع گجرات سے تھا اور وہ آنکھوں کی بینائی سے محروم تھے آپ کو قرآن پاک حفظ کرنے میں چار سال کا عرصہ لگا، دو سال قرأت کی تعلیم حاصل کی، 1980میں لاہور چلے گئے، شہرہ آفاق دینی درسگاہ جامعہ نظامیہ رضویہ میں درس نظامی کی تعلیم حاصل کی، آٹھ سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1988 میں فارغ التحصیل ہوئے، پہلی ملازمت 1993 میں محکمہ اوقاف پنجاب میں اختیار کرلی۔ داتا دربا لاہور کے نزدیک واقع پیر مکی مسجد میں بطورخطیب خدمات نبھائیں بعد ازاں ملازمت ترک کردی ۔مولانا خادم رضوی نے ناموس رسالت ﷺ کے تحفظ کیلئے ایک ایسا لازوال کردار نبھایا جسے صدیوں بھلایا نہیں جا سکے گا، مولاناخادم حسین رضوی کا سیاست میں آنے کا سبب ممتاز قادری کی سزائے موت کو مانا جاتا ہے، انہوں بہت جلد اپنے سخت بیانات سے قدامت پسند طبقے میں جگہ بنائی، ان پر 2016 میں توہین مذہب کے قانون کے حق میں ریلی نکالنے پر لاٹھی چارج کیا گیا اور انہیں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا تھا، انہیں پنجاب حکومت نے فورتھ شیڈول میں رکھا ہوا تھا جس کا مطلب ہے کہ انہیں اپنی نقل و حرکت کے بارے میں پولیس کا آگاہ رکھنا ہوتا تھا مگر حکومتی پابندیاں کبھی ان کے پائوں کی زنجیر نہ بن سکیں، 2017میں ایک پارلیمانی بل میں حکومت کی طرف سے قانون ختم نبوت کی ایک شق میں الفاظ بدلنے پر انہوں نے سخت رد عمل کا اظہار کیا اور فیض آباد انٹرچینج پر دھرنا دے دیا، 25 نومبر کی صبح وفاقی پولیس اور رینجر نے ایک ناکام آپریشن کیا جس میں کئی افراد زخمی ہوئے، پولیس نے 12 ہزار آنسو گیس کے شیل استعمال کیے، 8افراد جاں بحق بھی ہوئے جس کے بعد ملک گیر احتجاج پر فوج کو طلب کرنا پڑا، علامہ خادم حسین رضوی نے ہمیشہ ناموس رسالت کے پہریدار ہونے کا حقیقی حق ادا کیا، مرحوم کی وفات کی خبر ان کے چاہنے والوں پر قیامت بن کر ٹوٹی تحریک کے کارکنان دھاڑیں مار مار کر روتے دکھائی دئیے ان کی وفات سے ناموس رسالت کیلئے عظیم جدوجہد کرنے والا باب ہمیشہ کیلئے بند ہو گیا۔