• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نجی ایل این جی درآمدات کا معاملہ کھٹائی میں، پی ایل ایل/پی ایل ٹی ایل کا معاہدے سے انکار

اسلام آباد (خالد مصطفیٰ) گیس بحران میں مزید اضافے کا امکان ہے۔پاکستان ایل این جی لمیٹڈ (پی ایل ایل) اور پاکستان ایل این جی ٹرمینل لمیٹڈ (پی ایل ٹی ایل) نے انٹریوزر معاہدے کو حتمی شکل دینے سے انکار کرکے ایل این جی کی نجی درآمدات کے معاملے کو کھٹائی میں ڈال دیا ہے۔ پی ایل ٹی ایل چاہتا ہے کہ پاکستان گیس پورٹ کمپنی (پی جی پی سی) سالانہ 1 کروڑ 80 لاکھ ڈالرز کی رقم بطور معاوضہ ادا کرے تو ہی پی جی پی سی ٹرمینل کو نجی شعبے کی جانب سے ایل این جی درآمد کی اجازت دی جائے گی۔ جی ایچ پی ایل اور پی ایل ایل انتظامیہ نے بھی اس پیش رفت کا انکار نہیں کیا ہے بلکہ یہ کہا ہے کہ پی ایل ایل نے پہلے ہی نجی شعبے کے لیے خالی ٹرمینل کے استعمال کے لیے اشتہار جاری کردیا ہے جو کہ کابینہ اور ای سی سی فیصلے کے مطابق ہے۔ جب کہ انٹریوزر معاہدے کی شرائط پی ایل ایل ویب سائٹ پر موجود ہیں۔ پی جی پی سی ایل نے پی ایل ٹی ایل سے صرف 600 ایم ایم سی ایف ڈی کا معاہدہ کیا ہے، جب کہ اس سے زائد نجی صلاحیت ہے جو کہ پی جی پی سستے ایل این جی کارگوز کو استعمال میں لانے کے لیے کرتی ہے۔ تاہم، سرکاری ملکیتی کمپنیوں میں بدعنوانی پی جی پی ٹرمینل کو ملٹی یوزر ٹرمینل بننے سے روک رہی ہے۔ ذرائع نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ پی ایل ایل نے جو بھی شرائط رکھی ہیں وہ عالمی طریقہ کار کے عین مطابق ہیں اور ٹی پی اے رولز اور کوڈ کے ڈرافٹ کو اوگرا اور عالمی بینک نے متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے حتمی شکل دی ہے۔ پی ایل ٹی ایل کی جانب سے 1 کروڑ 80 لاکھ ڈالرز سالانہ پی جی پی سی سے بطور معاوضے طلب کرنے سے متعلق انتظامیہ کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں کابینہ نے اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی ہے جو کہ تین وفاقی سیکرٹریز اور ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن پر مشتمل ہے۔ یہ ٹرمینل کے نجی پارٹیوں کے استعمال پر معاوضے کو حتمی شکل دیں گے اور اپنی سفارشات ای سی سی اور کابینہ کو منظوری کے لیے بھجوائیں گے۔ اس ضمن میں جو بھی معاوضہ ملے گا اسے عوام تک منتقل کیا جائے گا۔ تاہم، اس نمائندے کو بتایا گیا ہے کہ فیصلہ ملک کے بہترین مفاد میں کیا جائے گا کیوں کہ پی ایل ایل حکام ان نجی کمپنیوں سے رابطے میں ہیں جو ایل این جی درآمد کرنا چاہتی ہیں۔ البتہ حکام کے مطابق، حکومت فی الوقت پی جی پی سی ایل ٹرمینل کے ذریعے ایل این جی درآمد کررہی ہے جو کہ 510 ایم ایم سی ایف ڈی گیس کے برابر ہے۔ ای سی سی نے یہ فیصلہ ایس ایس جی سی اور ایس این جی پی ایل کی اجارہ داری ختم کرنے کے لیے کیا تھا۔ پی جی پی ایل ٹرمینل میں 150 ایم ایم سی ایف ڈی ری۔گیسیفائی کرنے کی اضافی صلاحیت ہے جسے پی ایل ایل اور پی ایل ٹی ایل کے درمیان معاہدے کے بغیر استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ اہم بات یہ ہے کہ نجی کمپنیاں انٹریوزر معاہدے کے بغیر پی جی پی سی ایل ٹرمینل کا استعمال نہیں کرسکتیں۔ حکام کا کہنا تھا کہ دونوں ہی سرکاری کمپنیاں ایس ایس جی سی اور ایس این جی پی ایل اپنے پائپ لائن سسٹم میں نجی شعبے کی رسائی کی راہ میں رکاوٹ ہیں جو کہ ملکی مفاد اور خود ان کے مالی مفاد کے خلاف ہے۔ دونوں کمپنیوں کو خوف ہے کہ ان کے صارفین سستی گیس لینے کے لیے نجی ایل این جی درآمد کنندگان کے پاس چلے جائیں گے۔ حکام کا کہنا تھا کہ اوگرا میں اتھارٹی اور مہارت کا فقدان ہے کہ وہ سب کو یکجا کرسکے اور تمام ریگولیٹری مسائل پر مستحکم فیصلہ کرسکے۔ ان کا کہنا تھا کہ پلاننگ کمیشن معاوضے کے حوالے سے جولائی 2020 سے سیشنز کررہا ہے مگر اب تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے اور اس پر پٹرولیم ڈویژن، پی ایل ایل اور پی ایل ٹی ایل کا بڑا اثرورسوخ ہے۔ آزاد ایل این جی ماہرین کا کہنا ہے کہ پلاننگ کمیشن کو چاہیئے کہ وہ کابینہ کو اس بات سے آگاہ کرے کہ وہ سرکاری کمپنیوں کی وجہ سے کوئی تجویز نہیں دے سکتا۔

تازہ ترین