ملک میں ایک جانب کورونا کی وباء تیزی سے پھیل رہی ہے اور دوسری جانب سیاسی کشیدگی میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔سیاسی درجہ حرارت میں کمی کی بجائے مسلسل اضافہ ہورہا ہے کسی بھی جانب سے نرم رویہ اختیار نہیں کیا جارہا بلکہ دونوں جانب سے جارحانہ بیانات کا لامتناعی سلسلہ جاری ہے ۔اپوزیشن حکومت کو گھر بھجوانے اور حکومت اپوزیشن کو جیلوں میں بھجوانے کے بیانات جاری کرکے سیاسی کشیدگی کو مزید ہوا دے رہی ہے ۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے پشاور میں طاقت کا بھرپور مظاہر ہ کیا ۔
حکومت نے کوروناوباء کی دوسری لہر کے باعث اپوزیشن جماعتوں کو پشاورمیں جلسے کی اجازت دینے سے انکار کردیا تھا لیکن اپوزیشن جماعتوں نے حکومتی فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکارکردیا۔پشاور میں پی ڈی ایم کے جلسے کو حکومت نے فلاپ شو قراردیکر مسترد کردیا جبکہ اپوزیشن نے پشاور کے جلسے کو حکومت کے خلاف عوامی ریفرنڈم قرار دیتے ہوئےحکومت کو تاریخ کی ناکا م ترین حکومت قرار دے دیا۔
وزیر اعلی محمود خان کا کہنا ہے کہ صوبے کے عوام نے پی ڈی ایم کے جلسے کو مستر د کرکے بالغ نظری کا ثبوت دیا ہے کیونکہ اپوزیشن کے پاس عوام کی فلاح کے لئے کوئی منصوبہ نہیں۔تحریک انصاف نے صوبے میں بہترین کارکردگی کا مظاہر ہ کیا اور 2018 کے انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔
پشاور تحریک انصاف کا گڑھ ہے جہاں عوام نے تمام سیاسی جماعتوں کومسترد کرتے ہوئے تحریک انصاف کے امیدواروں کو کامیاب بنایا تھا ۔سیاسی پنڈت اور مبصرین پشاور کے جلسے کو موجود ہ صورت حال میں کامیاب جلسہ قرار دے رہے ہیں ۔سیاسی جماعتوں کو جمہوری معاشروں میں جلسے اور جلسوں کا حق حاصل ہوتا ہے لیکن موجودہ حالات میںحکومت اور اپوزیشن دونوں نے سیاست کو مقدم رکھا۔حکومت نے کورونا کے پیچھے چھپنے کی کوشش کی لیکن ناکامی کے بعد دہشتگردی کے خطرات کا اعلان کردیا جس سے پشاور میں خوف کی لہر دوڈگئی ۔عوام کو جلسے سے دور رکھنے کے لئے دہشتگردی کے الرٹ کا سہارا لینا درست نہیں تھا ۔
اتوار کے روز وزیراعلی کے مشیر کامران بنگش نے میڈیا کو بتایا کہ ایک ٹیلی فون کال ٹریس ہوئی ہے جس میں پشاور کے جلسے کو نشانہ بنانے کی اطلاعات ہیں ۔اس قسم کے الرٹ کو میڈیا کے ذریعے عام کرنا درست نہیں تھا کیونکہ اس سے صوبے بھر میں خوف کی لہر دوڈ گئ ۔سیاسی جماعتوں کے جلسوں میں کارکنوں کی بڑی تعداد ہی شریک ہوتی عوام اکثروبیشتر ان احتجاجی جلسوں میں شریک نہیں ہوتے لیکن پورے شہر میں غیراعلانیہ ٹیلی فون اور نیٹ کی سروس معطل رہی جس سے عام شہری ہی متاثر ہوئے ۔دوسری جانب پی ڈی ایم کی جماعتوں نے بھی پشاور کے جلسے میں کورونا ایس او پیز کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی۔ سیاسی قائدین میں بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز نے ماسک کا استعمال کیا لیکن دیگر قائدین نے ماسک پہننا گورا نہیں کیا اسی بنا پر جلسے میں موجود عوام نے بھی ایس او پیز کی پرواہ نہیں کی ۔
اپوزیشن نے ملتا ن او رلاہورمیں مزید دو جلسوں کے بعد لانگ مار چ کا بھی اعلان کررکھا ہےلیکن ابھی تک حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کسی قسم کی بات چیت یا مذاکرات کا کوئی امکان نظر نہیںارہا جس سے ملک میں سیاسی کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگا ۔پشاور کے جلسے میں مریم نواز اپنی داری کی وفات کے باعث خطاب نہ کرسکیں جبکہ نواز شریف اور زرداری کے حوالے سے منتظمین نے پہلے ہی اعلان کررکھا تھاا کہ وہ پشاور کے جلسے سے خطاب نہیں کریں گے ۔
پی ڈی ایم نے جنوری تک حکومت کو گھر بھجوانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہم کٹھ پتلیوں، انکے سلیکٹرز اور چیئرمین نیب کو نہیں چھوڑیں گے ، ان سے حساب لینگے اورانھیں باہر نکالیں گے،پی ڈی ایم رہنمائوں کا پشاو رجلسے میںلہجہ انتہائی سخت تھا اور ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو جنوری میں جانا ہوگا، ہم اعلان جنگ کر چکے، اب پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔ پی ڈیم ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نےبھی بڑے واضح الفاظ میں کہا کہ حقوق پر سمجھوتا کرنے کیلئے تیار نہیں، پاکستانیوں کی جنگ لڑ رہے ہیں، جو بھی سیاست میں مداخلت کریگا اسکا نام لینگے، جنگ کا اعلان کرچکے، میدان جنگ سے پیچھے ہٹنا گناہ کبیرہ ہے، حکومت نے معیشت تباہ کر دی۔
اسٹیبلشمنٹ حکومت کیخلاف ہمارے ساتھ آواز ملائے تو ہم بھائی بھائی ہیں۔ چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ نہ پنڈی کی رائے چلے گی، نہ آبپارہ کی رائے چلے گی، اب فیصلے عوام کرینگے، جب تک گڈ کرپٹ اور بیڈ کرپٹ کھیلتے رہیں گے کرپشن ختم نہیں ہوگی، حکومت کو کورونا صرف پی ڈی ایم جلسوں کے وقت یاد آتا ہے۔موجود ہ صورت حال میں قومی ڈائیلاگ کی اشد ضرور ت محسوس کی جارہی ہے جس کے ذریعے حکومت اوراپوزیشن جماعتوں کے درمیان مذاکرات کی راہ ہموار کی جائے اور سیاسی کشیدگی کو کم کیا جائے ۔کورونا کے باعث ملکی معیشت پہلے ہی گرائوٹ کی جانب رواں دواں ہے اور سیاسی افراتفری سے ملک میں معیشت مزید خراب ہوگی۔
ملکی مسائل میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے مہنگائی ٗبے روزگاری کے باعث عوام کا جینا دوبھر ہوچکا ہے اور کاروبار بھی تباہی کے دھانے پر پہنچ چکے ہیں۔ملک میں سیاسی استحکام کے بغیر ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا اس حوالے سے چند ماہ انتہائی اہمیت کے حامل ہیں لہذا ملک میں سیاسی افراتفری کے خاتمے ٗبلاامتیاز احتساب ٗشفاف انتخابات اور معاشی ترقی کے لئے نیا عمرانی معاہدہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کے ائندہ انتخابات شفاف ہوں اور تمام جماعتیں ان انتخابات کو تسلیم کریں ملک میں سب کا احتساب ہو جس پر سب کا اتفاق ہو علاوہ ازیں ملکی ترقی کے لئے تمام جماعتوں کے درمیان معاشی میثاق ناگزیر ہے ۔سیاسی قوتوں اور مقتدر حلقوں کو اس امر کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ ملک کی ترقی کے لئےمعاشی میثاق اور بلاتفریق احتساب کا شفاف نظا م ہی ترقی کا ضامن ہے ۔