ملکی سیاست کچھ عرصے سے شدید تناؤ کا شکار ہے .آئین کے مطابق ملک میں عام انتخابات کے لیے ابھی دو سال سے کچھ زیادہ عرصہ باقی ہے. لیکن سیاسی سرگرمیاں، جلسے جلوس، احتجاج بیانات اور ایک دوسرے پر کردار کشی کے الزامات اس شدت سے لگائے جارہے ہیں گویا انتخابات چند ماہ میں ہونے والے ہیں. ماضی میں ایسی صورت حال پیدا ہونے سے پیشتر ہی متنازعہ امور کو فہم و فراست سے سلجھانے کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس بلا لئے جاتے تھے. قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران اپوزیشن کا واک آؤٹ اور ہلکا پھلکا احتجاج کرتے ہوئے کاروائی جاری رکھنا اور قانون سازی ایک معمول کی پریکٹس ہوتی تھی۔
لیکن موجودہ صورتحال میں اب اسمبلی کے ایوان میں کسی سنجیدہ کارروائی کا تصور بھی خام خیال ہوتا نظر آ رہا ہے. ایک زمانہ تھا جب پاکستان پیپلز پارٹی سے وابستگی رکھنے والے ملک معراج خالد کو 1988میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد قومی اسمبلی کا اسپیکر بنایا تھا تو جب تک وہ اسپیکر رہے اپوزیشن کی جانب سے تمام عرصے واک آؤٹ نہیں ہوا. یہ ایک مثال تھی لیکن یہ ایک مثال تھی لیکن اب حد تو یہ ہے کہ سینیٹ (ایوان بالا) جسے Gentleman's House بھی کہا جا سکتا ہے جہاں انتہائی سنجیدہ ،تجربہ کار ،بردبار اور محترم پس منظر رکھنے والی شخصیات موجود ہوتی ہیں .وہاں بھی اب شورشرابہ ، الزامات اور ایک دوسرے پر رکیک حملوں کے واقعات عام ہیں۔
سیاست کے اس کشیدہ ماحول میں گزشتہ دنوں ایک مرحلہ یہ بھی آیا کہ یہ مقولہ قدرے غلط ثابت ہوا کہ” سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا“ تین دفعہ ملک کے وزیر اعظم رہنے والے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور شہباز شریف کی والدہ محترمہ شمیم اختر جو لندن میں قیام کے دوران علیل ہوگئی تھیں اور ان کا علاج جاری تھا .22 نومبر کو ان کا انتقال ہوگیا یاد رہے کہ وہ 15 فروری 2020 کو برطانیہ میں اپنے بڑے صاحبزادے نواز شریف کی ہارٹ سرجری کے پیش نظر ان سے ملاقات کیلئے لندن گئی تھیں. ان کے انتقال پر وزیراعظم، چیف آف آرمی سٹاف سمیت جہاں مسلم لیگی رہنماؤں نے تعزیت کی وہاں وفاقی کابینہ اور حکومت کے اہم رہنماؤں نے بھی اپنے تعزیتی پیغامات میں میاں نواز شریف سے اظہار افسوس کیا اور ”بعض شخصیات“ نے انھں فون کر کے ان سے تعزیت کی ہے۔
”بے رحم سیاست“ کے ماحول میں جہاں اختلاف کا اظہار دشمنی کے انداز میں کیا جارہا ہو وہاں یہ انتہائی مثبت انداز قرار دیا جا سکتا ہے.اگر ان حکومتی دعووں کو درست بھی تسلیم کرلیا جائے کہ پاکستان کی تجارتی رینکینگ بھارت اور بنگلہ دیش سے بہتر ہوگئی ہے۔ جس میں 79 درجے بہتری آئی ہے۔ پاکستان کا کرنٹ اکائونٹ بلینس 792 ملین سرپلس ہوگیا ہے۔ حکومتی معاشی ماہرین اور مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کا ان باتوں پر بھی آنکھیں بند کر کے یقین کرلیا جائے کہ پہلے دوسالوں میں کرنٹ اکائونٹ خسارہ 20 سے کم کر کے حکومت اسے 3 ارب ڈالر پر لے آئی ہے ۔ 30 جون سے اکتوبر تک حکومت نے کوئی قرضہ نہیں لیا اور روپیہ اب مستحکم ہوچکا ہے۔
وزرا کے ان بیانات کو بھی برداشت کرلیا جائے کہ ملکی معیشت میں بہتری آنے کے انتہائی مثبت اشاریے مل رہے ہیں تو امر واقعہ ہے کہ اس ملک کے غریب عوام نہ تو اس طرح کی گفتگو سمجھتے ہیں اور نہ ہی ان دعوئوں سے ان کا کوئی تعلق ہے۔ وہ صرف یہ جانتے ہیں کہ گذشتہ دو ڈھائی سالوں میں ٹماٹر ، آٹے ، بجلی اور گیس کے بلوں میں کتنا اضافہ ہوا۔
دوائیوں، پٹرول سمیت روزمرہ کے استعمال کی دوسری اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں کتنی کمی ہوئی، بچوں کی فیسوں اور ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں عام آدمی کو کتنا ریلیف ملا۔ کیا ایک سفید پوش اور وضعدارگھرانے کو عزت سے زندہ رہنے کاماحول فراہم کیا گیا جو کسی کے آگے ہاتھ بھی نہیں پھیلا سکتا تو یقیناً ایسا نہیں ہوا ہے اور بھی ایسا بہت کچھ ہوا ہے جس سے بالخصوص متوسط طبقات ، غریبوں اور امیر متوسط طبقے کی فہرست میں آگئے ہیں۔
اس لیے مثبت اعشاریوں کے دعوئوں سے امداد اور قرضے لینے والے ممالک اور اداروں کی تو توجہ حاصل کرسکتی ہے۔ لیکن زبوں حالی کا شکارعوام کو قائل نہیں کیا جاسکتا۔ رواں ماہ کے آغاز پروزیراعظم عمران خان کی جانب سے مہنگائی ختم کرنے کیلئے کئی اقدامات کرنے کے اعلانات ہوئے تھے اور انھوں نے کابینہ کے اجلاسوں اور اپنی تقاریر میں بھی یہ اظہار کیا تھا کہ وہ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی سے انتہائی پریشان اور متفکر ہیں۔ انھوں نے اس بات کی بھی یقین دہانی کروائی تھی کہ اب ملک میں مہنگائی ختم کرنا ان کی ترجیح ہوگی۔ جس کے نتائج بہت جلد سامنے آئیں گے۔ لیکن اقتدار ملنے کے ڈھائی سال بعد اگر ملک سے مہنگائی ختم کرنا ان کی ترجیح میں شامل ہو ہی گیا تھا تو اس کا نتیجہ کیا نکلا؟
ہاں بلند بانگ دعوئوں کے نتیجے میں اس دوران روزمرہ کی استعمال کی کچھ اشیا کی قیمتوں میں قدرے کمی دیکھنے میں آئی لیکن اب پھر وہی صورتحال ہے۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزرا بھی اس حوالے سے اپنی ہی حکومت پرتنقید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ اپنے حلقوں میں جانے سے بھی گریز کرتے ہیں۔کیونکہ انھیں اپنے ووٹر ز کے غصے اور ناراضی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وزیراعظم کی بعض معاملات جن میں ملک سے مہنگائی ختم کرنے کا معاملہ سرفہرست ہے۔
ان کے مخالفین ہی نہیں بلکہ حامی بھی اس کی ذمہ داری ان کی ٹیم کی ناتجربہ کاری کا شاخسانہ قراردیتے ہیں۔ ہوسکتا ہے یہ بات بھی کسی حد تک ٹھیک ہو۔ پھر یہ بھی کہاجاسکتا ہے کہ شاید وزیراعظم کے زہن میں یہ بات ایک حکمت عملی طور پر موجود ہو کہ 2021 آنے والے الیکشن کی تیاریوں کے آغاز کا سال ہوگا۔ جس کے آخری مرحلے میں وہ عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کیلئے جو بڑے اقدامات کرینگے اور ووٹرز کی توجہ حاصل کرنے کیلئے جو فیصلے کرینگے۔
جو سرپرائز دینگے۔ لیکن کیا اس وقت تک بہت دیر نہیں ہوچکی ہوگی۔ کیا ملکی سیاسی صورتحال انھیں اتنی مہلت دے گی؟ اس بات سے قطع نظر کہ اپوزیشن کے راہنما تو دسمبر جنوری یا پھر مارچ سے پہلے پہلے حکومت کی رخصتی کے بارے میں خاصے پراعتماد دکھائی دے رہے ہیں۔