• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غیر اللہ کی قسم اور قسم کے چند ضروری مسائل (گزشتہ سے پیوستہ)

تفہیم المسائل

امام اہلسنّت امام احمد رضاقادری ؒ سے سوال کیاگیا: ’’زید نے عمرو سے قسمیہ کہاکہ یہ کام کر اور اس نے نہ کیا تو اُس کام کے انکار کے سبب عمرو پر قسم عائد ہوتی ہے یا نہیں ؟‘‘آپ نے جواب میں لکھا:’’ کسی کے قسم دلانے سے نہ اُس پر قسم عائد نہ اس کام کا کرنا واجب، حدیث میں ہے : حضور اقدس ﷺ نے فرمایا: ’’قسم نہ دو‘‘۔ معلوم ہوا کہ قسم دلانے سے ماننا واجب نہیں ہوتا، ہاں ! اگر حرج نہ ہو تو مان لینا مستحب ہے ، (فتاویٰ رضویہ ، جلد13،ص:498)‘‘۔ خلاصۂ کلام یہ کہ غیر خدا کی قسم مکروہ ہے اور یہ شرعاً قسم نہیں ہوتی یعنی اس کے توڑنے پر کفارہ لازم نہیں ۔قسم کاایک ضروری مسئلہ یہ ہے کہ حدیثِ پاک میںدوکلمات آئے ہیں :(۱)ترجمہ:’’ حضرت ابوہریرہ ؓبیان کرتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تمہاری قسم میں اس چیز کا اعتبار ہوگا ،جس کی تمہارا ساتھی یعنی فریقِ مخالف تصدیق کرے‘‘ اور عَمرو کی روایت میں ’’یُصَدِّقُکَ بِہٖ صَاحِبُکَ‘‘کے الفاظ ہیں،(صحیح مسلم:4170)‘‘۔یعنی جس کی تمہارا خَصم(Opponent)تصدیق کرے۔

(۲)ترجمہ :’’قسم میں مُستحلِف (یعنی قسم دلانے والے) کی نیت کا اعتبار ہوگا ، (صحیح مسلم:4171)‘‘۔یعنی اس میں قسم کھانے والے کا توریہ معتبر نہیں ہوگا ۔علامہ علی القاری ؒ اس کی شرح میں لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ جب کوئی شخص اپنے خَصم اور فریقِ مخالف کے مطالبے پر قسم کھائے تو اس میں توریہ مفید نہیں ہوگا کیونکہ ایسی قسم میں حلف دلانے والے کی نیت کا اعتبار ہوگا، بشرطیکہ وہ قسم کے مطالبے کا مستحق ہو ،ورنہ قسم کھانے والے کی نیت کا اعتبار ہوتا ہے اوراس کے لیے توریہ کرنا جائز ہے ، ’’نہایہ شرح ہدایہ ‘‘ میں ہے : جب تم کسی شخص کے لیے قسم کھاؤ ،تو تم پر واجب ہے کہ اس طرح قسم کھاؤ ،جس سے قسم لینے والا تمہاری تصدیق کردے ،(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح ، جلد6،ص:2240)‘‘۔

اگر قاضی عدالت میں مُدّعٰی علیہ کوقسم دیتاہے اور وہ قسم کھالیتا ہے ،بعدمیں کہتا ہے : میں نے توتوریہ کیاتھا یعنی ذومعنی کلمہ استعمال کیا تھا اور میری مراد یہ تھی ، اسی طرح اگر قاضی عدالت میں درپیش مسئلے پر ’’مُدّعیٰ علیہ‘‘ کو قسم دیتا ہے اور وہ قسم کھالیتا ہے اوربعدمیں کہتا ہے :میں نے توریہ کیاتھا ، ذومعنی لفظ استعمال کیاتھا اورمُتَبادِراِلَی الْفَہْم(یعنی ظاہراً ذہن میں آنے والا )معنی ومفہوم مراد نہیں لیا ،بلکہ دور کا معنیٰ مراد لیاتھا ، تو اس میں حالف (قسم کھانے والے کی) نیت کا اعتبار نہیں ہوگا ،بلکہ قسم دلانے والے کی نیت کا اعتبار ہوگا ،یعنی جس بات پر قسم دلائی جارہی ہے، اس کی مراد اورمصداق کے تعین میں ’’قسم دلانے والے ‘‘ کی نیت کا اعتبار ہوگا ۔فقہائے اَحناف کے نزدیک اگر کسی شخص کے حق میں قسم لی گئی ہے تو حلف لینے والے کی نیت کا اعتبار ہوگا،خواہ اللہ کی قسم لی جائے یا طلاق اورعتاق کی اور جب کوئی شخص از خود قسم کھائے تو اس کی اپنی نیت کا اعتبار ہوگا اوروہ تاویل اور توریہ بھی کرسکتا ہے ۔

تازہ ترین