• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مولانا قاری محمد حنیف جالندھری

(ناظمِ اعلیٰ وفاق المدارس العربیہ، پاکستان)

(گزشتہ سے پیوستہ)

اسی طرح خلع کی پیشکش کرنا عورت کا حق ہے، لیکن عملاً خلع اس وقت ہو گا جب دونوں فریق اس عقد کا ایجاب و قبول کریں گے۔ بخلاف طلاق کے، کہ وہ عقد نہیں بلکہ اپنی ملکیت یا اختیار کو ختم کرنا ہے اس کے لیے دوسرے فریق کی رضامندی ضروری نہیں۔

مندرجہ بالا معروضات سے درج ذیل امور بالکل واضح ہو گئے کہ:(الف)قرآن کریم اور حدیث نبویؐ کی رو سے خلع اس وقت ہوتا ہے، جب میاں بیوی دونوں اس پر راضی اور متفق ہو جائیں۔(ب)باجماع امت شوہر کی طرف سے کوئی عدالت، کوئی ادارہ یا کوئی دوسرا فرد اس کی بیوی کو طلاق دینے یا خلع دینے کا مجاز نہیں ہے، اگر کسی شوہر کی بیوی کو اس کی اجازت و رضامندی کے بغیر کسی فرد ، کسی ادارے یا کسی عدالت نے طلاق دے دی یا خلع دے دیا تو وہ شرعاً کالعدم ہے ،یہ عورت بدستور اپنے شوہر کے نکاح میں ہے ،جب تک اس سے طلاق یا خلع نہ لے۔(ج)ایسی عورت جسے شوہر کی مرضی کے بغیر کسی ادارے یا فرد نے طلاق یا خلع دے دیا ہو، وہ چونکہ بدستور اپنے شوہر کے نکاح میں ہے ،اس لیے اس کا عقد ثانی باطل ہے، اگر وہ دوسری جگہ عقد کرے گی تو ہمیشہ گناہ کی زندگی گزارے گی، اس کا وبال دنیا و آخرت میں اسے بھگتنا ہو گا۔ اس کے ساتھ وہ ادارہ، فرد، عدالت اور قانون ساز بھی اس گناہ میں شریک ہے جس نے خلافِ شریعت قانون سازی کی اور فیصلے دیے۔

گزشتہ سطور میں خلع کے بالمقال ’’تنسیخِ نکاح‘‘ کا بھی اجمالاً ذکر ہوا جس میں قاضی مخصوص حالات کی بناء پر از خود بھی نکاح فسخ کر سکتا ہے ۔ عالم اسلام کی معروف شخصیت شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی اس کی توضیح فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:’’یہاں یہ سوال ہو سکتا ہے کہ جمہور فقہاء کے نزدیک بعض مخصوص حالات میں قاضی شرع کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ بلامرضی شوہر بھی زوجین میں تفریق کر دے جو بحکم طلاق ہے اور یہ طلاق شوہر کی اجازت کے بغیر حاکم کی طرف سے ہوتی ہے جیسے مفقود الخبر، مجنون، نامرد وغیرہ شوہر کے معاملات تمام کتب فقہ میں مفصل موجود ہیں، اس لیے تفریق قاضی کے مسئلے کی وضاحت کر دینا مناسب ہے۔ 

صورت حال یہ ہے کہ عورت کے جو حقوق مرد پر واجب ہیں ،وہ دو قسم کے ہیں ،ایک وہ حقوق جو قانونی حیثیت رکھتے ہیں اور جو نکاح کے قانونی مقاصد حاصل کرنے کے لیے ضروری ہیں، مثلاً نان و نفقہ اور وظائف زوجیت وغیرہ، یہ وہ حقوق ہیں جنہیں بزور عدالت شوہر سے وصول کیا جا سکتا ہے اور اگر شوہر ان کی ادائیگی سے عاجز ہو تو اس پر قانوناً واجب ہو جاتا ہے کہ عورت کو طلاق دے۔ ایسی صورت میں اگر وہ طلاق دینے سے انکار کرے یا طلاق دینے کے قابل نہ ہو تو مجبوراً قاضی کو اس کا قائم مقام قرار دے کر تفریق کا اختیار دیا جاتا ہے:(۱) مجنون (۲) متعنت (نان و نفقہ نہ دینے والا (۳) عنین (نامرد) (۴) مفقود الخبر (۵) غائب غیر مفقود، میں یہی صورت ہوتی ہے۔

اس کے برخلاف نکاح کے بعض حقوق ایسے ہوتے ہیں ،جن کی ادائیگی شوہر پر دیانتاً ضروری ہے، لیکن وہ قانونی حیثیت نہیں رکھتے اور نہ انہیں بزور عدالت وصول کیا جا سکتا ہے جیسے بیوی کے ساتھ حسنِ سلوک اور خوش اخلاقی کا معاملہ، ظاہر ہے کہ یہ حقوق بزور قانون نافذ نہیں کیے جا سکتے، جب تک شوہر کے دل میں خدا کا خوف اور آخرت کی فکر نہ ہو، دنیا کی کوئی عدالت ان کا انتظام نہیں کر سکتی اور جب اس قسم کے حقوق کا تعلق عدالت سے نہیں ہے تو اسے یہ اختیار بھی حاصل نہیں ہے کہ حق تلفی کی صورت میں وہ نکاح فسخ کر دے ۔(’’اسلام میں خلع کی حقیقت‘‘ ’’جزء الحیلۃ الناجزۃ‘‘ ص ۲۶۶، از مفتی محمد تقی عثمانی)

یہاں یہ پہلو بھی غور طلب ہے کہ عدالت کا منصب فریقین کے ساتھ انصاف کرنا ہے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ عدالت کا جھکاؤ کسی ایک فریق مقدمے کی طرف نہ ہو ،لیکن مغربی پروپیگنڈے کے زیراثر یہاں گویا یہ اصول طے کر لیا گیا ہے کہ خلع کے مقدمے میں مرد ہمیشہ ظالم اور عورت ہمیشہ معصوم و مظلوم ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ خلع کے قریباً سو فیصد فیصلے عورت کے حق میں کیے جاتے ہیں ،جب عدالت نے ذہنی طور پر شروع ہی میں عورت کی طرف داری کا اصول طے کر لیا ہو تو سوچا جا سکتا ہے کہ اس کا فیصلہ انصاف کے ترازو میں کیا وزن رکھتا ہے اور وہ شرعاً کیسے نافذ اور مؤثر ہو سکتا ہے اور اس کے ذریعے عورت پہلے شوہر کے لیے حرام اور دوسرے کے لیے حلال کیسے ہو سکتی ہے؟

کیا اس طرح کے مقدمات میں یہ احتمالات نہیں کہ:

(۱)عورت عیش پسند اور خاوند متوسط الحال ہو، وہ اوسط درجے کا نان و نفقہ دے سکتا ہو، مگر عورت زیادہ کامطالبہ کرتی ہو۔(۲)عورت آزادی پسند ہو، شرعی حجاب وغیرہ کی پابندی برداشت نہ کرتی ہو۔(۳)عورت بداخلاق اور شوہر کی نافرمان ہو اور آزادیٔ طبع کی وجہ سے زوجیت کا قلادہ گردن سے اتارنا چاہتی ہو۔(۴)آج کل کی روش پر چلتے ہوئے امیر کبیر، خوبصورت اور معاشرے میں ذی وجاہت شوہر کی خواہاں ہو۔(۵)کسی سے خفیہ آشنائی ہو اور اس کی خاطر اپنے خاوند سے خیانت اور ازدواجی زندگی کو تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہو۔

خدا کے لیے انصاف کیجیے! کہ ایسی صورت حال میں اگر عدالت مظلوم خاوند کا مؤقف سنے بغیر عورت کے مطالبۂ خلع پر یک طرفہ ڈگری جاری کر کے عورت کو خلع یا طلاق دے دیتی ہے تو کیا یہ انصاف کا خون کرنے کے مترادف نہیں ہے؟ کیا عدالت نے اصل حقائق کی تحقیق و تفتیش کا اپنا فریضہ ادا کیا؟ جس عدالت نے فریقِ مخالف کا مؤقف سننے تک کی زحمت گوارا نہیں کی، وہ اس کے ساتھ انصاف کیسے کر سکتی ہے؟

اس لیے قرآن و سنت کے عائلی قوانین کے مطابق اگر میاں بیوی کا کوئی معاملہ عدالت میں آتا ہے تو جج کی پہلی ترجیح زوجین میں مصالحت ہونی چاہئے، اگر مصالحت نہیں ہوتی تو جج شوہر کو رضاکارانہ طور پر طلاق دینے کے لیے آمادہ کرے، اگر شوہر کے لیے تیار نہ ہو تو بیوی کچھ لین دین کر کے شوہر کو طلاق کے لیے راضی کر لے۔ اسی کو خلع کہا جاتا ہے۔ اگر ان میں سے کوئی بھی تدبیر کارگر نہ ہو اور بیوی شرعی اعتبار سے ایسی وجہ بیان کرتی ہے جو موجب تفریق ہے اور جج کو واقعات و شواہد اور دلائل کی روشنی میں اس کے سچے ہونے کا ایک حد تک یقین ہو جائے تو ایسی صورت میں مسلمان جج کو خاص شرائط کے ساتھ تفریق کا حق ہے۔

تازہ ترین