اسلام آباد(نیوز ایجنسیاں) سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکومت کے بلین ٹری سونامی منصوبے کے معاملہ پر نوٹس لیتے ہوئے تمام ریکارڈ طلب کرلیا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے دریاؤں، نہروں کے کناروں پر شجر کاری سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران بلین ٹری سونامی منصوبے کا نوٹس لیتے ہوئے تمام ریکارڈ طلب کرلیا ہے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے ہیں کہ پنجاب، سندھ اور دوسرے صوبوں میں سانس لینامشکل ہے،بلین ٹری منصوبے کی تحقیقات کرائینگے،کیا سارے درخت بنی گالہ میں لگا دیئے، کام نہیں کرینگے تو جیل جائینگے، جمع پونجی ا ور نوکری بھی جائیگی، سندھ میں ڈاکو پکڑنے کے نام پر لاڑکانہ کے قریب جنگل کاٹا گیا، لیکن پولیس ڈاکو تو کیا ایک تتلی بھی نہیں پکڑ سکی، سندھ میں فنڈز دبا لیے جاتے ہیں،جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کاغذوں میں آدھا پاکستان جنگل ہے، اصل میں کہیںجنگل نہیں،عدالت عظمیٰ نے کلر کہار کی پہاڑیوں پر تعمیرات روکنے کا حکم دیتے ہوئے آئندہ سماعت پر سیکرٹری پلاننگ، چاروں صوبائی سیکرٹریز جنگلات کو بھی طلب کرلیا اور مقدمے کی سماعت ایک ماہ کیلئے ملتوی کردی۔ چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے دریاؤں، نہروں کے کناروں پر شجرکاری سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ اس دوران وفاقی و صوبائی سیکرٹریز جنگلات، ایڈووکیٹ جنرل اور عدالت کے طلب کرنے پر سیکریٹری موسمیاتی تبدیلی پیش ہوئے۔ عدالت عظمیٰ میں سماعت شروع ہوئی تو مذکورہ معاملے پر سیکریٹری موسمیات تبدیلی کو فوری طور پر طلب کیا گیا اور چیف جسٹس نے ڈی جی ماحولیات کومخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی دارالحکومت کی انتظامیہ بڑی مغرور ہے، آپ نے 5لاکھ درخت سارے بنی گالہ میں ہی لگائے ہونگے ، اگر توہین عدالت کا نوٹس ملا تو ساری جمع پونجی ختم ہوجائیگی۔چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام آباد میں درخت کٹ رہے ہیں، کشمیر ہائی وے پر بے ترتیب درخت لگے ہیں، درخت خوبصورتی کے بجائے بدصورتی پیدا کررہے ہیں، درخت قوم کی دولت اور اثاثہ ہیں لیکن اسلام آباد سے کراچی تک جائیں، دریا کنارے کوئی جنگل نہیں۔عدالت نے استفسار کیا کہ خیبرپختونخوا کا بلین ٹری سونامی کہاں ہے، صوبے میں لاکھوں درخت کاٹے جاتے ہیں، نتھیا گلی میں درخت کٹ رہے ہیں، ناران کاغان کچرا بن گیا ہے، کمراٹ، مالم جبہ، پشاور کہیں درخت نہیں؟ جس پر ایڈوکیٹ جنرل کے پی نے بتایاکہ مجموعی طور پر 73 لاکھ درخت لگائے ہیں اور 3 کروڑ 90 لاکھ لگانے کا پلان ہے۔ اس موقع پر عدالت نے سندھ حکومت کی جانب سے جھیلوں اور شاہراوں کے اطراف درخت لگانے سے متعلق رپورٹ پیش نہ کرنے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا اور ریمارکس دیئے کہ سندھ کے افسران جیل بھی جائینگے اور نوکری سے بھی جائینگے، عدالتی حکم عدولی پر سندھ کے افسران کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرینگے۔ساتھ ہی پنجاب کا معاملہ آیا تو سیکرٹری آبپاشی پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ صوبے میں کینال کے 25 ہزار رقبے پر درخت لگائے ہیں، اس علاقے میں 3 لاکھ درخت لگائے ہیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 25 ہزار میل کینال روڈ کے علاقے میں 3 لاکھ درخت کچھ بھی نہیں، ساتھ ہی سیکرٹری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کام نہیں کرینگے تو جیل بھی جائینگے اور نوکری سے بھی۔اس دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کاغذوں میں آدھا پاکستان جنگل ہے، اصل میں جنگل کہیں نہیں۔سماعت کے دوران کوئٹہ شہر سے متعلق چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ماضی میں کبھی کوئٹہ کے پہاڑوں پر درخت ہوا کرتے تھے، جس پر ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے کہا کہ کوئٹہ کے پہاڑوں پر درخت نہیں لگتے، اس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا کوئٹہ شہر کے پہاڑ چٹانیں ہیں؟ اس موقع پر کیس کی سماعت میں کچھ دیر کا وقفہ کیا گیا۔ وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو سیکرٹری موسمیاتی تبدیلی عدالت میں پیش ہوئے، جس پر چیف جسٹس نے بلین ٹری سونامی سے متعلق پوچھا۔اس پر جواب دیتے ہوئے سیکریٹری موسمیاتی تبدیلی نے بتایا کہ 430 ملین (43 کروڑ) درخت ملک بھر میں لگائے جاچکے ہیں، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ 430 ملین درخت کہاں لگے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 430 ملین درختوں کا لگنا ناقابل فہم لگتا ہے، اگر 430 ملین درخت لگ چکے ہوتے تو پاکستان کی تقدیر بدل جاتی، اتنے درخت لگنے سے ہمارا موسم بالکل تبدیل ہوجاتا۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ 430 ملین درخت کہاں سے لائے گئے؟ جس پر سیکریٹری موسمیاتی تبدیلی نے جواب دیا کہ اپنے ملک کی نرسریوں سے تمام درخت منگوائے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عجیب بات ہے اتنے زیادہ درخت نرسریوں میں کیسے پڑے ہوئے تھے۔ ساتھ ہی چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پنجاب، سندھ اور دیگر صوبوں کے مختلف شہروں میں سانس لینا مشکل ہے، اتنی گندگی ہے ملک میں کہ بندہ سانس نہیں لے سکتا۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہم پورے ملک میں مجسٹریٹ بھجوا کر 430 ملین درخت لگنے کی تحقیقیات کروائینگے۔ عدالت میں پیش ہونے والے سیکریٹری موسمیاتی تبدیلی نے کہا کہ گزشتہ برس سے 10 بلین ٹری سونامی پر کام کا آغاز کیا، دو برسوں کے دوران 430 ملین درخت ملک کے مختلف شہروں میں لگا چکے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ یہ درخت کتنے رقبے پر لگے ہیں۔اسکے جواب میں سیکرٹری نے کہا کہ ایک ملین (10 لاکھ) ہیکٹرز پر درخت لگائے گئے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جنگلات سے متعلق اختیارات تو صوبوں کے پاس ہیں، وفاق کی تو کوئی سنتا ہی نہیں، جس پر سیکرٹری نے کہا کہ بلین ٹری سونامی میں صوبوں کے ساتھ 50 فیصد شراکت داری وفاقی کی ہے۔